33

مثبت معاشی اشاریے(مصطفی کمال پاشا)

پاکستان کے معاشی حالات کے بارے میں مثبت تاثرات بڑھتے ہوئے نظر آنے لگے ہیں،اچھی خبریں سننے میں آ رہی ہیں، ہمارے سفارتی معاملات بہتری کی طرف رواں دواں ہیں۔امریکہ، چین، ترکی، ایران، سعودی عرب و امارات کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنے والی سیاسی قیادت ہنوز ویسے ہی منفی ہتھکنڈے استعمال کرنے میں مصروف ہے۔غیر فطری طور پر سیاسی قیادت کے منصب تک پہنچنے والی شخصیت اب بھی معاملات کو بگاڑنے میں ملوث ہے،پوری طرح، پوری تیاری کے ساتھ منفی سیاست کے ذریعے قومی معیشت کو سنبھلتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتی۔ عمران خان کے بارے میں حکیم محمد سعید شہید اور ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی پیش گوئیاں تو اپنی جگہ موجود ہیں،جنہیں اب پیش گوئیاں نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ عمران خان اپنے فکر و عمل کے ذریعے ان پیش گوئیوں کو صد فیصد ثابت کر چکے ہیں۔عمران خان کے مخالفین انہیں یہودی ایجنٹ قرار دیتے ہیں،انہیں طعنہ دیتے ہیں کہ وہ یہودیوں کے آلہ کار ہیں۔ یہ بات جزوی طور پر درست ہے،لیکن علمی و تحقیقی اعتبار سے درست نہیں ہے،کیونکہ عمران خان ان کے ایجنٹ نہیں ہیں۔ وہ گولڈ سمتھ خاندان کے داماد ہیں،ان کی بیٹی کے شوہر(سابقہ) ہی نہیں ہیں،بلکہ اس خاندان کے دو افراد کے باپ بھی ہیں۔ گولڈ سمتھ کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ صرف یہودی ہیں کامل سچ نہیں ہے۔تاریخ کے مطالعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے رتھ چائلڈز نے امریکہ اور یورپ کی ساخت پرداخت میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ 1917ء کے بالغوور ڈیکلریشن کے اجراء میں انہی کا کلیدی کردار ہے۔ یہی ڈیکلریشن 1948ء میں ریاست اسرائیل کے قیام کا باعث بنا تھا۔ اس ڈیکلریشن کے اجراء کا سہرا رتھ چائلڈز کے سر ہے۔اس کے بعد دنیا بھر میں پھیلے،بکھرے یہودیوں کو مجوزہ اور موعودہ سرزمین ِفلسطین کی طرف ہجرت کرنے کے لئے ابھارنا اور مالی معاونت مہیا کرنا بھی رتھ چائلڈز نے اپنے ذمہ لے رکھا تھا۔یہودیوں کو آباد کرنے اور یہاں فلسطینی عربوں سے زمین خریدنے کے لئے درکار سرمایہ بھی رتھ چائلڈز نے بھی فراہم کیا تھا۔اب تیسرے ٹیمپل کی تعمیر اور یہودیوں کے مسیحا کی آمد و استقبال کی تیاریوں میں بھی رتھ چائلڈز پیش پیش ہیں۔عمران خان کے سسرالی خاندان، گولڈ سمتھ فیملی کا تعلق بھی رتھ چائلڈز سے ہے، اِس لئے یہ کہنا کہ عمران خان یہودی ایجنٹ ہے درست نہیں ہے۔ وہ تو ان کے داماد ہیں۔یہودی ان کے سسرالی ہیں۔
بات ہو رہی تھی معاشی بہتری کی۔ ہماری سٹاک مارکیٹ 72 ہزار کی نفسیاتی حدود میں داخل ہو چکی ہے۔یہ تاریخی بلندی ہے۔ سرمایہ کار آنے والے دِنوں میں پاکستانی معیشت کو بڑھتا، پھلتا، پھولتا دیکھ رہے ہیں،اِس لئے وہ جی بھر کر سرمایہ کاری کر رہے ہیں، جس کے باعث مارکیٹ میں گرمی اور بڑھوتی نظر آ رہی ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک کے صدر ساتسوگوا سکاوا نے پاکستان کے اصلاحاتی ایجنڈے کو نہ صرف سراہا ہے، بلکہ اس کی مکمل حمایت کا بھی یقین دِلا دیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ”بینک عوامی ونجی شراکت داری اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے معاملات میں مکمل تعاون کرے گا۔ پاکستانی معیشت بہتری کی سمت گامزن ہو چکی ہے“۔
ایک اعلیٰ سطحی سعودی وفد سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخطوں کے لئے پہلے ہی پاکستان آ چکا ہے۔سعودی شہزادہ محمد سلمان کی ہدایت پر30 سے زائد کمپنیوں کے سرمایہ کاروں پر مشتمل وفدکے ساتھ یہاں 10ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کے معاہدوں پر ستخط کیے جائیں گے۔ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ سعودی سرمایہ کار براہِ راست یہاں سرمایہ کاری کے لئے یہاں آئے ہیں۔حکومت ِپاکستان، سعودی کمپنیوں کے ساتھ مل کر نوجوانوں کے لئے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔سعودی حکمران، پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سعودی سرمایہ کار یہاں آئے ہیں۔دوسری طرف سعودی ولی عہد کا دورہئ پاکستان بھی متوقع ہے۔اطلاعات کے مطابق محمد بن سلمان پاکستان کے دورے پر پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے فیصلوں پر عملدرآمد کی یاد داشتوں پر دستخط کریں گے۔یہ معمولی بات نہیں ہے۔پاکستانی معیشت کا پہیہ شدید سست روی کا شکار ہو چکا ہے۔سعودی سرمایہ کاری اس پہیے کو نئے سرے سے رواں دواں کرنے میں ممد و مددگار ثابت ہو گی۔پیداواری عمل کا مؤثر اجراء نہ صرف روز گار کے مواقع پیدا کرے گا بلکہ حکومتی وصولیوں میں بھی بہتری پیدا ہو گی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو گا۔برآمدات میں اضافہ،زرِمبادلہ کے ذخائر میں بہتری کا سبب بنے گا۔
ایرانی قیادت کے ساتھ معاملات بھی مثبت سمت میں آگے بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔ایران صرف ہمارا ہمسایہ ہی نہیں ہے، بلکہ تاریخی اعتبار سے ہمارا دوست بھی ہے۔ آر سی ڈی کے تحت پاکستان، ایران اور ترکی کے مل جل کر کام کرنے کی ایک تاریخ ہے۔ایران، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ کوئی چھوٹا موٹا پراجیکٹ نہیں ہے، اس کی تکمیل اور اجراء کے بھی ہماری معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔اس کے علاوہ پاک ایران بارڈر معاملات میں بہتری کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ سے پاکستانی عوام کو معاشی ثمرات ملیں گے۔اس بارے میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایران کے ساتھ تعلقات کی راہ میں امریکی دباؤ ایک بہت بڑا منفی عامل ہے، لیکن ہمارے سامنے ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ امریکی دباؤ کے باوجود کئی ممالک نے اپنے قومی مفادات کے حصول کے لئے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کئے۔بھارت کی مثال دیکھ لیں، امریکی حلیف ہوتے ہوئے بھی وہ روس کا بہت بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے،اسلحہ کی خریداری بھی کرتا ہے۔امریکی دباؤ کے باوجود ایران کے ساتھ بھارتی تجارت ہمارے لئے ایک مثال ہے۔ امریکہ کو ناراض کئے بغیر ہم اپنے قومی مفادات کے مطابق ایران یا کسی بھی ملک کے ساتھ معاملات طے کر سکتے ہیں۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم اپنے دوست امریکہ کو سمجھائیں،اپنی ضروریات بتائیں۔ ہم اپنے مفادات کا تحفظ امریکہ کو ناراض کئے بغیر بھی کر سکتے ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم سفارتی میدان میں کارکردگی بہتر بنائیں۔
سب سے اہم بات جو ہماری معاشی بحالی اور تعمیر و ترقی کے لئے ضروری ہے،وہ ہے سیاسی استحکام۔ سیاسی استحکام کے بغیر پائیدار معاشی ترقی کے اہداف حاصل نہیں کئے جا سکتے ہیں۔ سیاسی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ تمام ادارے اپنی اپنی آئینی و قانونی حدود کی پاسداری کریں۔ادارے جانتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ ان کی حدود کیا ہیں اور کہاں ختم ہو جاتی ہیں، اس لئے وہ نہیں چاہتے کہ وہ ان کی پابندی کریں۔سیاستدانوں کو اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننے کا رویہ ترک کر دینا چاہئے، اپنے معاملات خود نمٹانے کی پالیسی اختیار کرنی چاہئے، کیونکہ پاکستان ہر لحاظ سے بحرانی کیفیت کا شکار ہے۔ علاقے میں ہونے والی تبدیلیاں، عالمی سطح پر بننے اور بگڑنے والے اتحاد، تیزی سے تبدیل ہوتا عالمی معاشی منظر، یہ سب کچھ اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنی صفوں کو نئے سرے سے ترتیب دیں تاکہ بدلتے ہوئے حالات کا مقابل کر سکیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں