جس بنگلہ دیش کے بارے میں سمجھا جاتا تھا وہ ایک پرسکون اور پرامن ترقی کرتا ملک ہے، وہاں آج کل جو ہو رہا ہے، اس نے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ دہ ہفتوں سے جاری مظاہرے اس وقت شدت اور تشدد کی شکل اختیار کر گئے جب مظاہرے کرنے والے نوجوانوں پر حکمران جماعت کے طلبہ ونگ سے تعلق رکھنے والے غنڈوں نے تشدد کیا، فائرنگ کی،جس سے کئی نوجوان ہلاک ہوئے، جس کے بعد پورے بنگلہ دیش میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ اب حالت یہ ہے کہ ملک بھر میں کرفیو لگا ہوا ہے، فوج طلب کرلی گئی ہے، انٹرنیٹ بند ہے، بازار بند ہونے کی وجہ سے اشیاء کی قلت ہو گئی ہے۔ حسینہ واجد اپیلیں کررہی ہیں، مگر کوئی سننے کو تیار نہیں حتیٰ کہ ہیکرز نے وزیراعظم ہاؤس کی ویب سائٹ پر یہ جملہ لکھ دیا ہے، ”اب تحریک نہیں جنگ“۔ یہ ہنگامے ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہوئے تھے۔ ملازمتوں میں تیس فیصد کوٹہ عوامی لیگ کو دیا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ لوگ جو بنگلہ دیش بنانے کی تحریک میں شریک رہے یا ان کے لواحقین اس تحریک میں جانوں سے گئے، ان کے لئے یہ کوٹہ رکھا گیا ہے۔ ایک عرصے تک تو یہ سلسلہ چلتا رہا، مگر پھر نوجوانوں میں بے روزگاری کی وجہ سے بے چینی بڑھتی گئی۔ اس وقت بھی ملک کے 40فیصد نوجوان بیروزگار ہیں یا تعلیمی اداروں سے باہر ہیں۔
جب بھی سرکاری ملازمتیں آتی ہیں حکمران جماعت عوامی لیگ کوٹے کے نام پر بندربانٹ کرکے اپنے حامیوں کو بھرتی کرلیتی ہے۔ یوں میرٹ سے ہٹ کر کی جانے والی یہ تقرریاں بڑھتے بڑھتے اس سطح تک پہنچ گئیں کہ ملک میں بڑے ہنگاموں کا سبب بن گئیں۔ امریکہ اور اقوام متحدہ نے پُرامن مظاہرین پر ریاستی تشدد کی مذمت کرتے ہوئے بنگلہ دیشی حکومت پر زور دیا ہے وہ حالات کا پرامن سیاسی حل تلاش کرے اور طاقت کے ذریعے نوجوانوں کو دبانے کی کوشش نہ کی جائے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق بنگلہ دیش کو آزاد ہوئے 50برس سے زائد ہو گئے ہیں مگر اب بھی عوامی لیگ سمجھتی ہے سیاسی گرفت رکھنے کے لئے کچھ ایسے اختیارات اپنے پاس رکھنے ضروری ہیں جو اپوزیشن جماعتوں کے پاس نہ ہوں، ان میں ایک بڑا اختیار ملازمتوں کا یہ کوٹہ سسٹم بھی ہے جس طرح ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں ماضی میں یہ کرتی رہی ہیں کہ سیاسی حامیوں کی سفارش پر سرکاری ملازمتیں دی جائیں تاکہ اپنی مقبولیت برقرار رکھی جا سکے، لیکن اس کے اثرات مثبت سے زیادہ منفی مرتب ہوتے ہیں کہ اتنے حامی نہیں بنتے جتنے مخالف ہو جاتے ہیں۔ عوامی لیگ نے بنگلہ دیش میں اقتدار کو اپنی باندھی بنا کے رکھا ہے۔ حسینہ واجد بھی چوتھی مرتبہ وزارتِ عظمیٰ پر متمکن ہیں، چاہیے تو یہ تھا ایک مضبوط نظام متعارف کرایا جاتا اور میرٹ پر سرکاری ملازمتیں دینے کی پالیسی اپنائی جاتی، مگر اس کی بجائے تیس فیصد کوٹہ غیر منصفانہ تقسیم کرکے ایک ایسے لاوے کو پکنے کا موقع دیا گیا، جو بالآخر پھٹ پڑا ہے۔ بنگلہ دیش کی تاریخ میں اتنے پر تشددمظاہرے کبھی نہیں ہوئے۔ ایک طرف پولیس اور فوج کی فائرنگ سے بڑی تعداد میں مظاہرین ہلاک ہورہے ہیں اور دوسری طرف مظاہرین نے ریاستی اداروں کے افراد کو تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتارا ہے۔
بنگلہ دیش کی حالیہ صورت حال سے یہ راز بھی کھل گیا ہے کہ پائیدار جمہوریت اور پائیدار امن کیسے جنم لیتا ہے۔ بنگلہ دیش کی معیشت اور زرمبادلہ کے ذخائر کی مثالیں دی جاتی ہیں کہ وہ مضبوط بنیادوں پر کھڑے ہیں مگر معیشت اصل میں اس وقت مضبوط ہوتی ہے جب عوام مطمئن ہوتے ہیں جب انہیں روزگار مل رہا ہوتا ہے، قوت خرید اتنی ضرور ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کا پہیہ چلا سکیں۔ یورپی ممالک میں میرٹ کو اس لئے بنیاد بنایا گیا ہے کہ اس کی بدولت روزگار اور تعلیم یکساں طور پر ہر ایک کو اس کی تعلیم و صلاحیت کے مطابق دستیاب ہوتے ہیں۔ ہم جیسے یا یوں کہیں بنگلہ دیش جیسے ممالک کا المیہ یہ ہے کہ اقلیتی طبقے کے مفاد میں فیصلے کرکے یہ امید کی جاتی ہے اقتدار کی گرفت مضبوط رہے گی۔ بنگلہ دیش میں بدترین جمہوریت اس لئے بھی ہے کہ وہاں اپوزیشن جماعتوں کو بری طرح دبا کر رکھا گیا ہے، اس کا منفی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب لاوا پھٹتا ہے تو حکومت کے پاس کوئی طریقہ نہیں ہوتا اس کے آگے بند باندھ سکے۔ اس وقت بنگلہ دیش میں جو تحریک چل رہی ہے وہ اگرچہ نوجوانوں کی ہے تاہم اسے اب اپوزیشن جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہو چکی ہے، ایسے حالات میں صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے ہر حکومت کو سیاسی جماعتوں کی ضرورت پڑتی ہے مگر حسینہ واجد کی عوامی لیگ سیاسی طورپر اب تنہا کھڑی ہے، ریاستی ادارے اور عوام آمنے سامنے آ چکے ہیں جب حکمران اپنی بے تدبیری کی وجہ سے مشکل میں آتے ہیں تو حالات کا رخ موڑنے کے لئے بے بنیاد مفروضوں کا پروپیگنڈہ بھی شروع کر دیتے ہیں، مثلاً بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی طرف کہاجا رہا ہے مظاہرے کرنے والے پاکستان سے محبت رکھتے ہیں اور اس سے ملنا چاہتے ہیں۔ یہ کارڈ عوامی لیگ شاید اس لئے کھیل رہی ہے کہ بنگالیوں کے اس تعصب کو ابھارے جو اس نے 1971ء میں ابھار کر بنگلہ دیش بنایا تھا، حالانکہ ان 53برسوں میں ایک نسل ختم ہو چکی ہے اور دوسری نسل جوان ہو کر اپنا حق مانگ رہی ہے۔
بنگلہ دیش میں حالات کس کروٹ بیٹھتے ہیں، اس کے لئے ابھی انتظار کرنا پڑے گا لیکن اس ساری صورت حال سے ایک بات واضح ہے طاقت کے ذریعے عوام کو تادیر دبایا نہیں جا سکتا، آج کے حالات میں حکومتیں سمجھتی ہیں انٹرنیٹ پر پابندی لگا کر اور میڈیا کی زبان بندی کرکے جوچاہے کر سکتی ہیں جبکہ بنگلہ دیش کی صورت حال نے اس بات کو مکمل طور پر غلط ثابت کر دیا ہے، اگرچہ پورے بنگلہ دیش میں انٹرنیٹ کئی دنوں سے بند ہے، میڈیا پر پابندیاں ہیں،اطلاعات کے ذرائع مسدود کر دیئے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ صورتحال عالمی میڈیا تک بھی پہنچ رہی ہے اور ہیکرز نے انٹرنیٹ کی پابندیوں کو بھی ہوا میں اڑا دیا ہے۔خود حکومتی اداروں، بنکوں اور ایوان وزیراعظم تک کی سائٹس پر تحریک کے حق میں اور حکومت مخالف مواد مسلسل اپ لوٹ کیا جا رہا ہے۔اطلاعات کو روکنے کا نتیجہ کبھی مثبت نہیں نکلتا، یہ ہم پاکستان میں بھی دیکھ چکے ہیں، جب مارشل لاء ادوار میں اخبارات اور میڈیا پر سنسرشپ لگایا جاتا تھا مگر لوگ بی بی سی سن کر ہر بات جان جاتے تھے۔ اس قسم کے ہتھکنڈوں سے عوامی سیلاب کو نہیں روکا جا سکتا، عوام کی بات سننا پڑتی ہے، وگرنہ موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور معاملات براہ راست عوام کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں۔ جیسے اب بنگلہ دیش میں گئے ہوئے ہیں، حسینہ واجد بار بار اپیلیں کر رہی ہیں،کوٹہ سسٹم پر سپریم کورٹ میں دائر اپیل کا انتظار کرنے تک پرامن رہنے کی التجائیں کررہی ہیں، مگر کوئی ان کی سننے کو تیار نہیں اگر عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھ کے فیصلے کئے جائیں تو یہ وقت کسی بھی ملک پر آ سکتا ہے، ہماری اشرافیہ کو یہ بات پلے باندھ لینی چاہیے۔
31