وطن عزیز میں ڈرامے تو چلتے رہتے ہیں، چاہے وہ کچے کے ڈاکوؤں کی پروڈکشن ہوں یا پکے کے ڈاکوؤں کی کارفرمائی تاہم کچھ ڈرامے ایسے ہوتے ہیں جو پورے نظام کی قلعی کھول کر رکھ دیتے، جن کے بعد صاف لگتا ہے 77سال گزرنے کے باوجود اس ملک میں کوئی نظام نہیں بن سکا اور پتھر کے زمانے کی روایات پر ملک چلایا جا رہا ہے۔ آج کل آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کمشنر، ڈپٹی کمشنر، آر پی او اور ڈی پی اوز ہر ہفتے بڑا سا پینا فلیکس لگا کے جس پر وزیراعلیٰ مریم نواز کی تصویر کے ساتھ یہ لکھا ہوتا ہے ”مریم نواز کی ہدایت پر اور ویژن کے مطابق کھلی کچہری کا انعقاد“ اپنی مغلیہ عہد جیسی کھلی کچہریوں کاانعقاد کرتے ہیں۔ بیس تیس بندے سامنے بٹھا کے اور ویڈیو بنوا کے وہ یہ ڈرامہ اس طرح سٹیج کرتے ہیں کہ مرحوم ببوبرال اور البیلا بھی اگلے جہان بیٹھے سوچتے ہوں گے ہم نے تو دنیا میں ڈرامے کے نام پر جھک ہی ماری،یہ ہوتا ہے ڈرامہ، یہ ہوتا ہے سکرپٹ اور یہ ہوتا ہے ویژن، انصاف سرعام دینے کا تصور پاکستانی فلموں کے لکھاریوں اور ہدایت کاروں کو بھی اس طرح سمجھ نہیں آیا جس طرح ہمارے ان افسروں نے وطن عزیز کو دیا ہے۔ فلموں میں توسلطان راہی زیادہ سے زیادہ گنڈاسہ پکڑ کر کسی مظلوم کی امداد کے لئے پہنچ جاتا تھا، مگر آج کے یہ افسر پورے لاؤ لشکر اور پروٹوکول کے ساتھ کھلی کچہری کا ڈرامہ رچاتے ہیں اور پھر ایک ہفتے تک اپنے دفتروں میں بیٹھ کر انہی مظلوموں کی ایسی تیسی کرتے ہیں تاکہ جب یہ روتے دھوتے وہاں آئیں تو ہم وزیراعلیٰ کے ویژن پر چلتے ہوئے انہیں فوری انصاف فراہم کرکے بہہ جا بہہ کرا دیں، کوئی یہ نہ سمجھے کھلی کچہریوں کا یہ ڈرامہ کوئی آج کی ایجاد ہے۔ یہ بہت پرانا سکرپٹ ہے جس پر ہر نیا حکمران عمل کرتا ہے اور بیورو کریسی اسے شیشے میں اتار لیتی ہے۔ اس ڈرامے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اربوں روپے ہم جس نظام پر خرچ کرتے ہیں وہ ناکارہ، کرپٹ اور ازکارِ رفتہ ہو چکا ہے۔ یہ بڑے بڑے دفاتر، تھانے، کچہریاں، افسروں کی فوج ظفر موج، یہ سیکرٹریٹ، یہ ہوٹر بجاتی گاڑیاں، یہ لاؤ لشکر صرف شوشا کے لئے ہیں،انصاف ملنا ہے، مسائل حل ہونے ہیں یا ظالم کے خلاف کسی مظلوم کی دادرسی ہونی ہے تو اس کا فورم وہ کھلی کچہری ہے جس پر یہ بینر لگا ہوتا ہے ”وزیراعلیٰ کے ویژن کے مطابق کھلی کچہری کا انعقاد“ حالانکہ میرے نزدیک تو وزیراعلیٰ کی طرف سے یہ لکھوانے پر فوری کارروائی ہونی چاہیے جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں خود پنجاب حکومت انٹرنیٹ ایپس کے ذریعے عوام کو ان کی دہلیز پر سہولتیں فراہم کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے وہاں ایک ضلع کا افسر، جس کی آبادی کم از کم بیس پچیس لاکھ ہوتی ہے، بیس پچیس بندے بٹھا کر یہ جھوٹا ڈرامہ رچاتا ہے کہ ضلع میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہے جس بات کو قابل گرفت ہونا چاہیے اس پر شاباشی ملے گی تو کیسا نظام اور کون سی گورننس کا انتظام پروان چڑھے گا؟ہاں البتہ کرپشن کا ڈنکا ضرور بجتا رہے گا۔
انگریزوں کو بھلا کیا معلوم تھا، ہم جو نظام دے کر جا رہے ہیں، اس کی کیسے کیسے مٹی پلیدکی جائے گی، آپ ذرا غور کریں کہ کسی ڈویژن میں نظام کے کل پرزے ہوتے کتنے ہیں ڈویژن کا سربراہ کمشنر کہلاتا ہے،بے تاج بادشاہ ہوتا ہے۔ اس کے نیچے اپنے دفتر کے اندر ایڈیشنل کمشنر، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، پی اے، کئی اسسٹنٹ اور کلرکوں کی لمبی قطار موجود ہوتی ہے۔ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ڈویژن میں جتنے اضلاع ہیں، ان کے ڈپٹی کمشنروں کی نگرانی کرے، انہیں عوام کی خدمت پر کمربستہ رکھے۔ پھر ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر ہوتا ہے، جس کے نیچے دو تین ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور تحصیلوں میں اسسٹنٹ کمشنر ہوتے ہیں جن کا کام تحصیل کی سطح تک عوام کے مسائل حل کرنا ہے۔ دوسری طرف پولیس کا نظام ہے۔ ڈویژن کی سطح پر ریجنل پولیس افسر ہوتا ہے، جس کا کام ڈویژن میں آنے والے اضلاع کے ڈی پی اوز پر نظر رکھنا ہوتا ہے تاکہ عوام کو انصاف اور تحفظ ملتا رہے۔ ڈی پی اوز کے نیچے ایڈیشنل ایس پی،ایس پی آپریشن، ایس پی انوسٹی گیشن، ایس پی ٹریفک موجود ہوتے ہیں جبکہ سرکل میں ڈی ایس پی اورتھانوں میں ایس ایچ اوز کاجال بچھا ہوتا ہے،اب یہ سارا نظام ایک دھوکہ، ڈرامہ اور ڈھکوسلا اس وقت ثابت ہوتا ہے جب کمشنر اور آر پی اوز کھلی کچہریاں لگاتے ہیں، نیچے یہی ڈرامہ ضلع اور تحصیل کی سطح پر کیاجاتا ہے، شخصی اقتدار کی بدترین مثال دیکھنی ہو توان کھلی کچہریوں کے ذریعے دیکھی جا سکتی ہے جب کسی جگہ کمشنر کھلی کچہری لگانے جاتے ہیں تو وہی عملہ جو عوام کے لئے عذاب بنا ہوتا ہے، اس کھلی کچہری کا اہتمام کرتا ہے۔ ماہی آوے گا تے پھلاں نال دھرتی سجاواں گی، کے مصداق ماحول کو گل و گلزار بنا دیا جاتا ہے۔ ڈویژن کا سربراہ جس کے نیچے کم از کم پچاس ساٹھ لاکھ کی رعایا ہوتی ہے ایک چھوٹے سے ہال میں راجہ اندر بن کر بیٹھا ہے اور ایک دو گھنٹے میں انہی لوگوں کو درخواستیں مارک کرکے کپڑے جھاڑ کر بڑی گاڑی میں بیٹھ کر چلا جاتا ہے۔ مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ ایسے واقعات سامنے آ چکے ہیں کھلی کچہریوں میں پیش ہونے والے سائلین محکموں کے انتقام کا نشانہ بن جاتے ہیں۔
اس سارے نظام سے تو یہی لگتا ہے اوپر سے نیچے تک جتنے افسروں کو قوم اپنے خون پسینے کی کمائی سے پال رہی ہے وہ عوام کے مسائل حل کرنے پر نہیں بلکہ بڑھانے پر لگے ہوئے ہیں اس طریقے سے تو اگلے دو سو سالوں تک ہم کوئی ایسا نظام وضع نہیں کر سکتے جو خودکار طریقے پر کام کرتا ہو اور جس کے اندر خود احتسابی کا نظام بھی موجود ہو۔ڈویژنل کمشنر کی یہ ناکامی ہے کہ لوگ اس کی کھلی کچہری میں شکایات لے کر آئیں،اس کا دفتر آخر کس مرض کی دوا ہے۔ اس پر کیا تالے لگے ہوئے ہیں۔ کھلی کچہری کے نظام کو رائج کرکے ایک طرف تسلیم کرلیا گیا ہے موجودہ دفتری نظام عوام کو ریلیف نہیں دے سکتا اور دوسری اس میں نچلے عملے کے لئے بھی یہ پیغام ہے کہ ان پر کسی کی کوئی گرفت نہیں جس طرح چاہو عوام کو رگڑا دیئے جاؤ۔ اسی طرح افسروں کے درجہ بدرجہ دفاتر کیا بند کچہریاں ہیں، جہاں عام آدمی کا داخلہ ممنوع ہے اور ان اچھوتوں کے لئے ہفتہ وار کھلی کچہریاں لگائی جاتی ہیں۔ حیرت ہے کہ حکمران اسے اپنا ویژن قرار دیتے ہیں حالانکہ کسی مہذب ملک میں ایسا ہو تو لوگ کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دیں، مگر ہائے یہ ہمارے معصوم عوام جنہیں 77سال بعد بھی بھیڑ بکریاں سمجھاجا رہا ہے۔
33