12

ٹیکس نظام کی دیمک نسیم شاہد

چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے ایک ایسے مرض پر نگاہ ڈالی ہے، جو ملکی معیشت میں بڑی خاموشی سے دیمک بن کر اسے اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔یہ ایک ایسی کرپشن ہے جوکہ قانون کے نام پر اور قانون کی آڑ میں کی جاتی ہے، اور کسی کی اس پر نگاہ بھی نہیں جاتی، میں نے جب سے یہ خبرسنی ہے کہ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ میں زیر التواء97ارب روپے کے ٹیکس کیسز نمٹانے کا حکم دیا ہے، میں سوچنے لگا ہوں 97ارب روپے کے ٹیکس کیسز تو صرف سپریم کورٹ میں زیر التواء ہیں،ہائیکورٹس میں کتنے کھرب روپے کے ٹیکس کیسز زیر التواء ہوں گے، جہاں ایک بار حکم امتناعی لے کر سالہا سال تک تاریخ ہی نہیں نکلنے دی جاتی۔ یہ عجیب گورکھ دھندہ ہے جس میں بہت سے سہولت کار ہیں،اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ملک میں ٹیکس کلچر پروان نہیں چڑھنے پاتا، کیونکہ جس نے پچاس کروڑ ٹیکس دینا ہو، وہ ایک دو کروڑ لگاکراچھے وکیل کے ذریعے عدالت سے ٹیکس وصولی روکنے کا حکم لے کر پھر ایف بی آر کے عملے اور اُس کے لیگل سیل کی مدد سے کیس کو کھوہ کھاتے میں ڈلوا دیتا ہے۔سپریم کورٹ میں یہ 97ارب روپے کے کیسز ایسے ہی تو زیر التواء نہیں پڑے کوئی تو ہے اس پردہ نگاری میں کہ جو مٹی ڈال کر ان کیسوں کو سالہا سال لٹکا دیتا ہے۔سپریم کورٹ میں اِس وقت تقریباً ساڑھے تین ہزار کیس التواء کا شکار ہیں۔ان میں زیادہ تر وہ کیسز ہیں،جو طویل عرصے سے سماعت کے انتظار میں پڑے ہوئے ہیں۔اب چیف جسٹس نے اِن کیسوں کو جلد نمٹانے کا حکم دیدیا ہے،جانے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔کاریگروں کے اِس ملک میں ہر حکم کا توڑ نکا لیا جاتا ہے،دس دس کروڑ روپیہ فیس لے کر اربوں کی ٹیکس چوری پر عدالتی حکم کا پردہ ڈالنے والے وکلاء اتنی آسانی سے تو چیف جسٹس کے حکم پر عملدرآمد نہیں ہونے دیں گے اِس کے لئے سپریم کورٹ کو کوئی میکنزم بنانا پڑے گا۔ اگرچہ اِس حوالے سے چیف جسٹس نے رجسٹرار سپریم کورٹ، ایف بی آر حکام اور معاشی ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے،جو اِس حوالے سے لائحہ عمل بنائے گی تاہم خود چیف جسٹس صاحب کو اِس معاملے میں اپنی دلچسپی اور توجہ کو برقرار رکھنا پڑے گا یہ معاملہ اتنا سادہ اور آسان نہیں، عقل عیار ہے سو بھیس بٹا لیتی ہے۔اس عقل شیطان کو مات دینے کے لئے ضروری ہے کہ پوری تیاری شروع کر کے اس عمل کو پایہئ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
ٹیکس چوری اور انڈر انوائسنگ کا کلچر ہمارے نظام کی وہ دیمک ہے، جس کا کبھی جم کر علاج نہیں کیا گیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے ہمارا طبقہئ اشرافیہ ہر جگہ موجود ہے، وہی سیاست میں ہے اور وہی اقتدار کے ایوانوں میں سکہ جمائے ہوئے ہے،اُس کے ڈانڈے ہر اُس جگہ جا ملتے ہیں،جہاں سے فیصلے صادر ہونے کی گنجائش ہوتی ہے۔ مجھے ایک بڑے افسر نے جو ایف بی آر میں رہے بتایا کہ جتنا ٹیکس عوام سے سیلز ٹیکس کی مد میں وصول کیا جاتا ہے،وہ سب کا سب قومی خزانے میں جمع ہو جائے تو ہمیں کسی بیرونی امداد کی ضرورت ہی نہ پڑے،یہ ٹیکس عوام کی جیبوں سے تو نکل جاتا ہے،مگر خزانے میں جمع نہیں ہوتا، درمیان میں موجود طبقہ اسے خردبرد کر لیتا ہے۔اس ڈکیتی کو روکنے کا اگر فول پروف نظام بنا لیا جائے تو ہم مالی لحاظ سے مستحکم ہو سکتے ہیں،مگر ملی بھگت اور کہیں جعلی اعداد و شمار کے ذریعے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اگر کبھی کسی ایماندار افسر کی وجہ سے گرفت میں آبھی جائیں تو عدالتوں سے حکم امتناعی لے کر کیس کو ایک لمبے عرصے کے لئے التواء میں ڈال دیا جاتا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا عدالتوں میں جو اربوں روپے کے ٹیکس کیسز زیر التواء ہیں، وہ بہت مضبوط اور سچے ہیں اگر وہ مضبوط نہ ہوتے تو ٹیکس نادہندگان کبھی اُن میں طویل حکم امتناع نہ لیتے،بلکہ حقائق پیش کر کے اپنے حق میں فیصلہ کرا لیتے،مجھے اُن کی بات میں وزن نظر آیا۔ اگریہ 97ارب روپے کے ٹیکس کیسز بے بنیاد ہیں تو سپریم کورٹ تک کیسے پہنچے،ظاہر ہے زیریں عدالتوں نے ایف بی آر یا حکومت کے حق میں فیصلے دیئے ہیں اُن کے خلاف اپیلیں ہوئی ہیں،وہاں کیسوں کا طویل عرصے تک رُک جانا بھی اس بات کی چغلی کھاتا ہے کہ کوئی تو ایساہے جو کیسوں کو آگے بڑھنے نہیں دیتا،اسی افسر نے بتایاکہ وہ ایف بی آر کے انٹیلی جنس ونگ میں بھی رہے ہیں۔محکمہ تساہل سے کام نہیں لیتا،بلکہ بڑی جانفشانی سے مواد اکٹھا کرتا ہے۔اِس دوران کتنے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کتنی بار تبادلے کی دھمکی ملتی ہے یہ ایک علیحدہ کہانی ہے تاہم محکمہ اس وقت بے بس ہوجاتا ہے، جب اتنی بڑی محنت سے بنائے گئے کیس پر عدالت کا حکم امتناعی آ جاتا ہے۔اُس کے بعد کام ہمارا نہیں لیگل سیکشن کا ہوتا ہے اور وہاں بہت کچھ ایسا ہو جاتا ہے جسے عام زبان میں انہونی کہا جاتا ہے۔اُن کا کہنا تھا یہ بڑی اچھی پیش رفت ہے کہ معاملہ چیف جسٹس کے نوٹس میں آ گیا ہے یہ مسئلہ حل ہونا بھی وہیں سے ہے، کیونکہ جب تک عدالتی آڑ موجود ہے کروڑوں کا ٹیکس بچانے والے چندکروڑ دے کر نظام کو اسی طرح مفلوج کرتے رہیں گے۔
چند سینئر وکلاء سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا وکیل کا کام اپنے کلائنٹ کو ریلیف دینا ہوتا ہے اس لئے وہ ہر حد تک جاتاہے،اصل ضرورت اِس امر کی ہے کہ ایف بی آر اور حکومت اپنے پراسیکیوشن شعبے کو مضبوط بنائے۔محکمہ اگر عدالت میں مضبوط آواز اٹھائے تولمبے لمبے التواء نہیں مل سکتے اِس ضمن میں ان اداروں میں موجود کرپشن کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جو حقائق کو بدل کر ریلیف پہنچانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ بہرحال یہ کام تو اچھا ہوا ہے کہ سپریم کورٹ کی مداخلت سے یہ اعداد و شمار سامنے آ گئے ہیں،97 ارب روپے کے کیسز کا التواء وہ بھی اس غریب ملک میں جہاں کام چلانے کے لئے قومی ادارے بیچے جا رہے ہیں، ایک بہت بڑا المیہ ہے ان کیسز کی وجہ سے اُن اداروں اور افراد نے مزید کتنے ٹیکس بچائے ہوں گے،اس کے اعداد و شمار بھی یقینا ہوشربا ہوں گے۔اِس ضمن میں بہتری تب ہی آ سکتی ہے جب ٹیکس مقدمات کے لئے بھی علیحدہ بینچز بنا دیئے جائیں۔دوسری ضرورت اِس امر کی ہے کہ ان مقدمات کا فیصلہ کرنے کی پابندی عائد کر کے بڑی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔مجھے ایک دوست وکیل نے بتایا سپریم کورٹ میں دس سال پرانے کیسز بھی موجود ہوں گے دو چار سال تو معمولی بات ہے۔اب چونکہ عدالتی سطح پر بہت سی تبدیلیاں آ رہی ہیں، سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بھی دو گنا کر دی گئی ہے اس لئے ٹیکس مقدمات کی مدت مقرر کر کے سپریم کورٹ میں اِس مقصد کے لئے علیحدہ بینچ بنائے جا سکتے ہیں۔ قوم اِس سلسلے میں پوری طرح سپریم کورٹ کے ساتھ ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں