22

کیپٹن کرنل شیرخان شہید نشان حیدر

کیپٹن کرنل شیرخان شہید نشان حیدر
(یوم پیدائش کی مناسبت سے آغا سفیرحسین کاظمی کا خاص مضمون)
قارئن! ہماری عسکری تاریخ ان گنت معجزانہ واقعات سے عبارت ہے۔میں خودایسے کئی واقعات سے متعلق حیران ہوجاتا ہوں،جو عقل کو دنگ کردینے والے ہیں۔اورجب کرگل جنگ کی بات کی جائے تو اس جنگ کی خاص بات یہ تھی کہ جنہیں مقبوضہ جموں وکشمیرپردشمن کے ناپاک قدموں کو پیچھے ہٹانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔اُنھوں نے جس حکمت عملی کے تحت خطرناک ترین مقام سے دشمن کے مورچوں میں پہنچ کر قبضہ کرنا تھا،اُس ساری کارروائی میں کہیں بھی واپسی کا راستہ نہیں تھا۔بلکہ مارنے اور مرنے کے سوا کوئی تیسرا آپشن نہ تھا۔اور کرگل میں پیش قدمی کرنیوالے اس ھقیقت سے قطعی طورپرلاعلم یا بے خبربھی نہیں ہوئے ہونگے۔کہ عسکری کارروائی میں پیش قدمی کی جزئیات ہی اولیت نہیں رکھتیں،بلکہ پس قدمی اور واپسی کا راستہ بھی ملحوظ خاطررکھا جاتا ہے۔ 1948سے لیکرآپریشن جبرالٹراورکرگل جنگ تک مادروطن کے بہادربیٹوں نے مقبوضہ جموں وکشمیرکی مسلم اکثریت کو دشمن کے ناپاک تسلط سے آزادکرانے کیلئے عسکری اعتبارسے کوششیں بھی کیں۔چونکہ عسکری زندگی میں کسی بھی عملی کارروائی کے تناظرمیں ایک ایک بات،ایک ایک پہلو کومدنظررکھ کر منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔اس لئے کسی کمی کوتاہی کااحتمال نہ ہونے کے برابرہی ہوتا ہے۔اور جب سوال ایک قوم کی آزادی اور بقاء کا ہوتو پھرکوئی بھی جنگ تب ہی نتیجہ خیز ہوسکتی ہے جب ”نظریہ“مسلمہ ہو۔اور پاکستان،جس دوقومی نظریہ کے تحت معرض و جودمیں آیا۔اُسی نظریہ کا معجزہ ہے کہ برصغیرکیساتھ ساتھ ریاست جموں وکشمیرمیں مسلمانوں ترجیح مملکت پاکستان ٹھہری۔اور اسی بناء پرعشروں تک کشمیریوں نے تحریک آزادی کو مرحلہ وار آگے بڑھانے کیلئے کام کیا۔اور اِسکی قیمت بھی ادا کی ہے۔بہرحال آج چونکہ کرگل جنگ کے شہید کیپٹن کرنل شیرخان پرموضوع باندھا ہے۔توتمہید میں پاک فوج کی اس پہلو سے کی گئی کوششوں کا تذکرہ ناگزیرلگا۔واضع رہے کرگل جنگ ہمارے جانبازوں کاایسا سفرشہادت تھا،جس سے واپسی ہوگی؟؟جانیوالے بھی اس حوالے سے شاید ہی سوچے ہوں۔کیونکہ اُنکی زندگیاں بامقصد تھیں۔اورعسکری زندگی کو شہادت کیلئے تیار رکھ کرہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کی جانب کب اور کیا بہانہ بن جائے۔اُنھیں اسکی پروانہ تھی۔ اور جب ایک مجاہدانہ کرداراس سطع پرپہنچا ہوا ہوتو پھریقینی طورپرمعجزے ہی رونماء ہواکرتے ہیں۔ کرنل شیر خان،یکم جنوری1970 میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع صوابی کے گاؤں نواں کلی میں مغل خاندان میں پیدا ہوئے۔اُن کے دادا نے 1948 میں کشمیرمیں جنگ لڑی تھی اورفوج سے خصوصی محبت تھی ا ور انھیں یونیفارم میں ملبوس فوجی اچھے لگتے تھے چنانچہ جب پوتا پیدا ہوا تو انھوں نے کرنل کا لفظ ان کے نام کا حصہ بنا دیا۔اس طرح پوتے کانام کرنل شیرخان ہوگیا۔یہ چاربہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ 1978 میں جب کرنل شیر خان صرف آٹھ سال کے تھے۔والدہ کاانتقال ہوگیا۔اُسکے بعدپھوپھیوں اور چچاؤں نے پرورش کی۔چونکہ گھرانادیندارتھا،اس لئے کرنل شیر خان اسلامی تعلیمات اور افکار پر پوری طرح عمل پیرا ہوئے۔ایک بارداڑھی کٹوانے کا کہاگیا تونہ مانے اور پاک فوج میں کمیشن حاصل کرنے کی دوسری کوشش میں کامیاب ہوئے۔ اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے پہلی پوسٹنگ 27 ویں سندھ رجمنٹ میں ہوئی جوکہ اُسوقت اوکاڑہ میں متعین تھی۔اچھے روئیے اور چہرے پر ہمیشہ سپاہی کی مسکراہٹ کی خوبی کے حامل شیرخان اپنے افسروں اور ساتھیوں میں بہت مقبول ہوئے۔ جنوری 1998 میں خود کو لائن آف کنٹرول پر پوسٹنگ کے لیے پیش کیا۔تو ناردرن لائن انفنٹری میں پوسٹنگ ہوگئی۔ کیپٹن کرنل شیر خان جنوری 1998 میں ڈومیل سیکٹر میں تعینات تھے۔ سردیوں میں جب انڈین فوجی پیچھے چلے گئے تو وہ چاہتے تھے ان کے ٹھکانے پر قبضہ کر لیں۔اس سلسلے میں وہ اعلیٰ افسران سے ابھی اجازت لینے کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ کیپٹن شیر خان نے اطلاع بھیجی کہ وہ چوٹی پر پہنچ چکے ہیں۔کرنل اشفاق حسین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ’کمانڈنگ افسر تذبذب میں تھے کہ کیا کریں۔ اس نے اپنے اعلیٰ حکام تک بات پہنچائی اور اس ہندوستانی چوکی پر قبضہ جاری رکھنے کی اجازت مانگی لیکن اجازت نہیں دی گئی اور کیپٹن شیر سے واپس آنے کے لیے کہا گیا۔‘’وہ واپس آ گئے لیکن آتے آتے ہندوستانی پوسٹ کی بہت سے علامتی چیزیں مثلا انڈین فوجیوں کی وردیاں، دستی بم، وائکر گن کے میگزن، گولیاں اور کچھ سلیپنگ بیگ اٹھا لائے۔کارگل پر شائع ہونے والی کتاب ’کارگل ان ٹولڈ سٹوریز فرام دی وار‘ کی مصنفہ رچنا بشٹ راوت کا کہنا ہے کہ ’پاکستانیوں نے ٹائیگر ہل پر پانچ مقامات پر اپنی چوکیاں قائم کر رکھی تھیں۔ پہلے آٹھ سکھ رجمنٹ کو ان پر قبضہ کرنے کا کام دیا گیا لیکن وہ یہ نہیں کر پائے۔‘ ’بعد میں جب 18 گرینیڈیئرز کو بھی ان کے ساتھ لگایا گیا تو وہ کسی طرح اس پوزیشن پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن کیپٹن شیر خان نے ایک جوابی حملہ کیا۔ پہلی بار ناکام ہونے کے بعد انھوں نے اپنے فوجیوں کو دوبارہ تیار کر کے حملہ کیا۔’جو یہ جنگ دیکھ رہے تھے وہ سب کہہ رہے تھے کہ یہ ’خودکش‘ حملہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ مشن کامیاب نہیں ہو گا، کیونکہ انڈین فوجیوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ تھی۔‘چار جولائی 1999 کو کیپٹن شیر کو ٹائیگر ہل پر جانے کے لیے کہا گیا۔ وہاں پاکستانی فوجیوں نے تین دفاعی لائنیں بنا رکھی تھی جنھیں کوڈ نمبر 129 اے، بی اور سی دیا گیا تھا۔انڈین فوجی 129 اے اور بی دفاعی لائن کو کاٹنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ کیپٹن شیر شام کو چھ بجے وہاں پہنچے تھے اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد دوسری صبح انھوں انڈین فوجیوں پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔کرنل اشفاق حسین لکھتے ہیں: ’رات کو انھوں نے سارے سپاہیوں کو جمع کیا اور شہادت پر ایک تقریر کی۔ صبح پانچ بجے انھوں نے نماز ادا کی اور کیپٹن عمر کے ساتھ حملے پر نکل گئے۔ وہ میجر ہاشم کے ساتھ 129 بی پر ہی تھے کہ انڈین فوجیوں نے جوابی حملہ کر دیا۔‘’خطرناک صورتحال سے بچنے کے لیے میجر ہاشم اپنے توپ خانے سے اپنی پوزیشن پر ہی گولہ باری کی بات کہی۔ جب دشمن فوجی بہت قریب آتے ہیں تو فوجی ان سے بچنے کے لیے اس قسم کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘کرنل اشفاق حسین آگے لکھتے ہیں: ’ہماری اپنی توپوں کے گولے ان چاروں طرف گر رہے تھے۔ پاکستانی اور انڈین جوانوں کی دست بدست لڑائی ہو رہی تھی۔ تبھی ایک انڈین نوجوان کا برسٹ کیپٹن کرنل شیر خان کو لگی اور وہ نیچے گر گئے۔‘باقی پاکستانی فوجیوں کو تو انڈین فوجیوں نے وہیں دفن کر دیا لیکن کیپٹن شیر خان کے جسد خاکی کو پہلے سرینگر اور پھر دہلی لے جایا گیا۔

قارئن!کیپٹن کرنل شیرخان کاسفرشہادت ٹائیگرہل پرپورا ہوگیا۔اوردشمن بھی پاک فوج کے سپاہیانہ جذبے اور بہادری کا اعتراف کئے بغیرنہ رہ سکا۔لیکن کتنی ماؤں کے بیٹے اس جنگ سے واپس نہ آسکے۔یہ الگ داستان ہے۔مگریہ بات بہرحال واضع ہے ؎کہ ”اگردشمن کو دبوچ کرکسی مناسب حل کی طرف مجبورکرنیکی کوشش کی بھی گئی تھی،اُسے سیاسی قیادت نے ”کلنٹن کیساتھ ہنگامی ملاقات کے ساتھ ہی فوج کی واپسی کا اعلان کرکے ناکامی سے دوچارکردیا“۔۔۔۔۔بہرحال کرگل میں دشمن کے مورچوں پرقابض ہوکر بیٹھنے والے جانبازوں کی موجودگی کا علم ہونے پرجب معرکہ آرائی شروع ہوئی تو دشمن کی طرف سے کمانڈکرنیوالے برگیڈئیر ایم ایس باجوہ نے جوکچھ دیکھا اور محسوس کیا۔بعدمیں اس حوالے سے ایک نشریاتی ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا تھاکہ شروع میں ہم سمجھتے کہ یہ کوئی آتنک وادی ہیں لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ باقاعدہ فوجی ہیں۔ ”میں دیکھ رہا تھا کہ پاکستانی فوج کا ایک افسرجوکہ ٹریک سوٹ میں ہے۔بہت ہی زیادہ ایکٹو ہے۔اسکے ساتھ ایک دوسرا افسربھی تھا۔بعدمیں پتہ چلا کہ ٹریک سوٹ والا یہی کیپٹن شیرخان تھا اور دوسرا میجرتھا۔اس نے جانتے ہوئے بھی کہ وہ ایسی لڑائی لڑرہا ہے جو جیت نہیں سکتے۔مگرجس طرح وہ لڑاوہ۔۔۔اُس نے ہمیں دوباربہت پیچھے تک کھدیڑدیا تھا۔۔۔ جب یہ جنگ ختم ہوئی تو میں اس افسر کا قائل ہو چکا تھا۔ میں 71 کی جنگ بھی لڑ چکا ہوں۔ میں نے کبھی پاکستانی افسر کو ایسے قیادت کرتے نہیں دیکھا۔ باقی سارے پاکستانی فوجی کرتے پاجاموں میں تھے اور وہ تنہا ٹریک سوٹ میں تھا۔۔۔۔جنگ بندی کے حکم کے باوجودکیپٹن کرنل شیرخان نے اپنے30ساتھیوں کو لیکرٹائیگر ہل قبضہ کرکے 5 پوسٹیں قائم کیں۔جبکہ ٹائیگرہل کی واپسی کیلئے انڈیا نے بریگیڈیئر ایم پی ایس باجوہ کو ذمہ داری دی۔ جنہوں نے 8 حملوں میں 60 فوجی مروائے۔جسکے بعد مذید دو بریگیڈ استعمال میں لائی گئی۔کیپٹن کرنل شیر خان کے 27ساتھی شہید ہوئے اور خودبھی زخمی ہونے کے باوجو آخری دم تک جاری رکھایہاں تک کہ دشمن کے ایک نوجوان کرپال سنگھ 10 گز کے فاصلے سے ایک برسٹ مارکر شیر خان کو گرانے میں کامیاب رہا۔۔ ہندوستانی فوج نے ٹائیگرہل پردوبارہ قبضہ کیا تو پاکستان کے 30 شہیدفوجیوں کو وہیں دفن کر دیا مگر بریگیڈیئر باجوہ کی خواہش پر کیپٹن کرنل شیر خان کاجسد خاکی نیچے منگوایا۔او ر اپنے جنرل افسر کو شیر خان شہید کی بہادری سے آگاہ کیا اور دہلی بھیجتے وقت شہید کی لاش کے ساتھ ہاتھ سے لکھا ہوا خط حکومت پاکستان سے شیر خان کی بہادری کے اعتراف میں اعلیٰ ترین اعزاز کی درخواست کی گئی، دشمن نے کیپٹن کرنل شیر خان شہید کی میت 16 جولائی1999 کو پاکستانی پرچم میں لپٹی اعزاز کے ساتھ پاکستان کے حوالے کی۔ پاکستان نے بہادربیٹے کونشان حیدرکا اعزازدیا۔جبکہ پاکستان محکمہ ڈاک نے کیپٹن کرنل شیر خان کے اعزاز میں 8روپے والا ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔۔۔۔
قارئن!چاہے جو مرضی تاویلات دی جائیں،مگرحقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیرپرہندوستان کا قبضہ جائز قرارنہیں دیا جاسکتا۔لیکن ہندوستانی قیادت نے کمال مکاری و عیاری سے کام لیتے ہوئے مقبوضہ کشمیرمیں آبادی کا تناسب بدلنے کیلئے چھپی کوششیں کیں۔اور پھرکھل کر سامنے آیا اور امتیازی دفعات ختم کرکے ریاست کا مقبوضہ حصہ ضم بھی کرلیا اور آبادی کا تناسب مسلسل بدلنے پربھی کام جاری ہے۔ یہی نہیں بلکہ اُس نے کوشش کی ہے کہ وادی میں بطورخاص تحریک مزاحمت کیخلاف ریاستی دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہوئے ہلاک ہونیوالے اپنی فورسزکے اہلکاروں کے ناموں سے تعلیمی ادارے اور دوسری تنصیبات منسوبیت کاسلسلہ نہایت تیزی سے بڑھایا ہے۔اور محض تین/چار سال کے عرصہ میں اڑھائی سو کے قریب نوٹیفکیشنز جاری ہوئے ہیں۔جبکہ لداخ لیہ سمیت کرگل سے ملانے والے علاقوں میں شاہراہوں پرجابجاہندوستانی فوجیوں کے ناموں سے بڑے بڑے بورڈآویزاں کئے گئے تھے۔جن پرلکھا تھا اَنھوں نے آپکے لئے جانیں دیں۔ساتھ فیملی ممبران کے فوٹیج بھی تھے۔اس حوالے سے ہمارے ایک مہربان بتاتے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیرگئے تو وہاں سے کسی نہ کسی طرح لداخ،لیہ کے علاقے تک پہنچے۔کیونکہ خواہش تھی وہ علاقہ بھی دیکھوں جہاں ہمارے جانبازوں نے کرگل جنگ کے دوران سپلائی لائن کاٹی۔۔۔۔چنانچہ جب وہاں گئے تو راستے میں جابجا ہندوستانی فوجیوں کے ناموں سے بڑے بڑے بورڈآویزاں کئے گئے تھے۔
آخرمیں فقط یہ کہنا ہے کہ قوموں کی زندگیوں میں کوئی بھی تحریک ”زبانی کلامی جمع خرچ“سے جان پکڑسکتی ہے نہ ہی نتیجہ خیز بن سکتی ہے۔جبکہ بحیثیت ”بیس کیمپ“ہم نے شہ رگ پاکستان کیساتھ جو کھیل تماشے کئے۔اب اُنکی انتہاء ہوچکی ہے۔دشمن ہمارے کھوکھلے پن کا ادراک کرتے ہوئے اپنے تئیں،مسئلہ کشمیرکا کام تمام کرچکا ہے۔اور1948/1965/1971اور مابعد جس قدرقربانیاں دی گئیں،اُنکے نتیجے میں پاکستان اور کشمیریوں کے ہاتھ کیا آیا؟؟یہ نہایت اہم سوال ہے۔۔۔۔اب بھی پاکستان اور افواج پاکستان کے حوالے سے خوب خوب اظہارخیال کیا جاتا ہے۔اور5 اگست2019کے بعدزمینی حقائق عیاں ہونے کے بعدبھی کشمیریوں کیساتھ (زبردستی تعلق ظاہرکرکے) اظہاریکجہتی کاسلسلہ جاری ہے۔اور یہ مکروفریب کا ایک بے رحم کھیل ہے جس میں سیاستدان کا کچھ بھی نہیں جاتا،لیکن75سال میں قوم کی ماؤں کے بیٹے،سہاگنوں کے سرتاج اور بچوں کے سروں پرباپ کے سائے تک نہیں رہے۔اُنکی قربانیاں کس کھاتے میں گئیں؟؟؟؟آج کرگل جنگ کے شہید کیپٹن کرنل شیرخان کے یوم پیدائش کی مناسبت سے یہ عنوان قائم کرنیکا مقصد بھی یہی ہے کہ خوداحتسابی کی دعوت دی جائے۔مسلح افواج میں ہمارے صرف آزادکشمیرکے60ہزارکے لگ بھگ لوگ موجود ہیں۔ساڑھے چارہزارسے زائد جانبازوں کو ریاست پاکستان نے شہید ڈیکلیئرکررکھا ہے۔اور سابق فوجیوں کی بھی ایک معقول تعدادموجودہے۔ان سب کی خدمات اورقربانیوں طفیل آزادی کا تحفظ یقینی بناہوا ہے۔پھرغازیوں کی خدمات کااعتراف اور شہیدوں کی قربانیوں کا احترام سوالیہ نشان کیوں ہے؟؟؟آزادحکومت جہاں ”انتخابی سیاست“کی پرورش کیلئے ہرحربہ استعمال کرنے میں کوئی غفلت نہیں برتتی۔ہروزیرمشیرکومحکمہ جات میں بندے کھپانے اور کہاں مذید روزگارمہیا کرنے کیلئے شعبہ جات قائم کے جاسکتے ہیں۔اس حوالے سے سکیمیں بناتے ہوئے یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ آزادکشمیرکے غازیوں اور شہیدوں کے اجتماعی ضمیرکے اطمینان کیلئے بھی کچھ اقدامات کئے جائیں۔اپنے غازیوں اور شہیدوں کی قدرکرنا سیکھو،اگرآزادی عزت و وقارکیساتھ جینا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں