مریم نواز شریف ”تختِ پنجاب“ پر براجمان ہو گئیں،ان کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔کمال بات ہے کہ پاکستان کی 77 سالہ تاریخ میں کسی خاتون کو کسی بھی صوبے کا وزیر اعلیٰ بننا نصیب نہیں ہوا البتہ خاتون کے ایک ایک دفعہ وزیر اعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی ہونے پر فخر ضرور کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں سیاست کو مردوں کی ہی جاگیرسمجھا جاتا ہے۔ خواتین کو سیاست میں اپنی جگہ بنانے کے لئیاتنے ہی جتن کرنے پڑتے ہیں جتنے نئی نویلی بہو کو سسرال میں اپنی جگہ بنانے کے لئے، یہ اور بات کہ سسرالی ذرا کم ہی مطمئن ہو پاتے ہیں۔ سیاست میں قدم رکھنے کاحوصلہ زیادہ تر وہی خواتین کرتی ہیں جن کے خاندان سیاست سے جڑے ہوتے ہیں لیکن پھر قدم قدم پر موروثیت کے طعنے بھی برداشت کرتی ہیں۔ گھر سے لے کر سیاسی میدان تک خواتین کو فیصلہ سازی میں شامل کرنے کا حوصلہ مردوں میں ذرا کم ہی ہے۔ 2023ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی 49.6 فیصد آ بادی خواتین پر مشتمل تو ہے لیکن انتخابات میں ان کی شمولیت تقریباً 20 فیصد کے آس پاس ہی ہے۔
’ہمارے اورپی ٹی آئی کے درمیان دیوارنہیں، پہاڑ حائل ہے، ملک چلنے والا نہیں نظام بیٹھ جائے گا: مولانا فضل الرحمان
قیام پاکستان کی جدودجہد میں ”اماں بی“ اور بیگم مولانا محمد علی جوہر کا اہم کردار رہا، وہ 1920ء میں آل انڈیا خلافت خواتین کمیٹی کی سیکرٹری بنی، 1930ء میں اپنے شوہر کے ہمراہ لندن گول میز کانفرنس میں شریک ہوئیں اور پھر آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کی رکن بھی منتخب ہوئیں۔ پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے 79 اراکین اسمبلی میں سے صرف دو خواتین بیگم شائستہ اکرام اللہ اور بیگم جہاں آرا شاہنواز تھیں، دوسری قانون ساز اسمبلی میں سرے سے کوئی خاتون شامل ہی نہیں تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اسمبلی نے 1956ء کا دستور بنایا، کسی خاتون کے اسمبلی میں نہ ہونے کا مطلب ہے کہ آئین سازی میں بھی کسی خاتون کی آواز شامل نہیں تھی، 1956ء کے آئین میں خواتین کی مخصوص نشستوں کے لئے حق رائے دہی کا اصول طے کیا گیا، جس سے خواتین کو دہرے ووٹ کا حق حاصل ہوا لیکن 1962ء کے آئین میں اسے ختم کردیا گیا۔فیلڈ مارشل ایوب خان کے اس اقدام سے خواتین کی سیاسی جدوجہد کو خاصا نقصان پہنچا اور نتیجتاً صرف 6 خواتین ہی اسمبلی کا حصہ بن سکیں۔ محترمہ فاطمہ جناح نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے کا حوصلہ کیا تو خواتین کی سیاست کو بھی کافی سہارا ملا، محترمہ فاطمہ جناح نے بھر پور طریقے سے الیکشن لڑا، لیکن حالات نے ساتھ نہ دیا، کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر انتخابات شفاف ہوتے تو وہ ملک کی پہلی خاتون صدر بن جاتیں۔اس کے بعد بھی خواتین کی اسمبلی میں تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی رہی، 1977ء کے انتخابات میں بیگم نسیم ولی خان واحد خاتون تھیں،جنہوں نے الیکشن لڑا اور جیت گئیں۔1988ء میں الیکشن جیتنے والی خواتین کی تعداد چار تھی، جن میں بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ نصرت بھٹو بھی شامل تھیں۔1988 ء میں بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں، وہ پاکستان کی پہلی خاتون سربراہ تو تھیں ہی لیکن ساتھ ساتھ کسی بھی اسلامی ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے کا اعزاز بھی انہی کے حصے میں آیا، بنگلہ دیش کی خالدہ ضیا ان کے بعد اس عہدے پر فائز ہوئی تھیں۔ پاکستانی سیاست میں بہت سی خواتین نے اپنا نام جمایا، کئی وزارتوں کی حقدار ٹھہریں، تعلق چاہے کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو ان کی محنت و مشقت کسی سے کم نہیں ہے بلکہ ذرا زیادہ ہی ہو گی۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف مخصوص نشستیں خواتین کے کام کر گئے، الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق ہر جماعت انتخابی ٹکٹوں کا کم از کم 5 فیصد خواتین امیدواروں کو دینے کی پابند ہے۔
27