آپ نے سفر نامے تو ضرور پڑھے ہونگے لیکن میں جس سفر کا تذکرہ کرنے لگا ہوں وہ قلم سے قرطاس تک کا سفر ہے۔ یہ سفر دل و دماغ سے ہوتا ہوا، حالات و واقعات کی شاہراوں سے گزرتے ہوتے، الفاظ کی ترش و شیرین رفتار کے ساتھ اپنی منزل کی جانب کسی مقصد کے حصول کے لئے رواں دواں ہوتا ہے۔
میرے اس سفر کا آغاز ایک دوست سے کھانے کی میز پر گفتگو کے دوران ہوتا ہے۔ دوست کو گفتگو میں کمال کا ملکہ حاصل تھا۔ لیکن اسکے لکھنے والی کرامت میر ی نظروں سے اوجھل تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھے کرامت کا جلوہ دکھاتا اس نے مجھ سے استفسارکیا کہ تم کچھ لکھتے بھی ہو؟ یہ سُن کر میں یک دم ماضی کے دریچوں میں چلا گیااور جواب دیا ہاں لکھا کرتا تھاپر اب پڑھنے والے نہیں۔وہ مسکرا کر بولا میں پریم پتر کی بات نہیں کر رہا میں نے ہنس کر پھر جواب دیا کہ میرا اشارہ اُن خطوط کی طرف تھا جو کبھی ماضی میں اپنے دوستوں کو لکھا کرتے تھے۔ اور جن کے جواب آنے پر ہم بڑی بے چینی سے انتظار کرتے تھے۔ اور پھر ہم کاغذ کے اس ٹکڑے کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑا رہتے تھے۔ اب تو وہ لکھنے کا رواج اب تقریباََ ختم ہو چکا ہے۔ اور اسکی جگہ موبائل سروس نے لے لی ہے۔ میری اس بات پر دوست نے آہ بھری آواز میں کہا پہلے ہم اپنے دل کی آواز بند کر لکھا کرتے اب دوسروں کے درد کی آوازبن کر لکھنا چاہیے۔اور جہاں تک ممکن ہو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا آفاقی پیغام عام کیا جائے تاکہ اس بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح میں اپنا کردار ادا ہو سکے۔
اُس کے بعد دوست نے اپنی لکھی ہوئی تحریر مجھے پڑھ کر سُنائی اور میں اُسے داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ پھر سوچ میں پڑ گیا کہ واقعی الفاظ انسان کی سو چ کے عکاس ہوا کرتے ہیں جو آس پاس رہنے والوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں پر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں۔ یہی الفاظ زخموں پر مرہم کا کام بھی کرتے ہیں اور تلوار سے زیادہ زخم بھی دے جاتے ہیں فرق اِن الفاظ کے چناو کا ہوتا ہے۔تب ہی تو حدیث شریف میں آیا ہے ”حقیقی مسلمان تو وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کی ایذاء) سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں“ لیکن آج سوچیں ہم نے دوسرں کو طرح طرح کے القابات اور خطابات سے نواز کر اُن کا دل چھلنی کیا ہوا ہے یہ کہاں کی مسلمانی ہے؟اس پر ہمیں خاص توجہ کی ضرورت ہے ورنہ پھر ہمیں اپنی ایمان کی خیر منانی چاہیے اور اصلاح کے ساتھ تجدید ایمان بھی ضروری ہے۔
جس دوست سے میرا مکالمہ جاری تھا آئیے اُس کا مختصر سا تعارف کرواتا چلوں میرے اُ س دوست کا نام سفیر احمد ہے۔ بے شمار اوصاف کا مالک اور اعلیٰ ظرف یہ دوست ملک کی سلامتی اور دفاع کی خاطر اپنے بوڑھے والدین اور بیو ی بچوں سے کوسوں میل دور اپنے فرائض منصبی ادا کر رہا ہے۔ جس کے رمضان کے روزے اور عید کی خوشیاں اکثر اپنے پیاروں کے بغیر ہی گزر جاتی ہیں اور جو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے ایک رفاعی ادارے کے قیام کا ارادہ بھی رکھتا ہے اللہ اِ س کو اپنے نیک مشن میں کامیاب کرے آمین۔
اس سیرحاصل گفتگو کے دوران مجھے کافی دیر ہو چکی تھی پھر میں نے سفیر سے رخصتی کی اجازت چاہی اور واپسی کے سارے سفر میں دل ہی دل میں لکھنے کی ٹھان لی اور قلم کمان سنبھال لیا۔
جب انسان کی سوچ مثبت ہو اور طلب سچی ہو تو منزل اُس کو قریب آنے لگتی ہے۔ میر ے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اس صحافتی سفر کے دوران میری ملاقات پرنٹ اور سوشل میڈیا کی معروف شخصیت آغا سفیر حسین کاظمی سے ہوئی۔ اس ملاقات نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔آغاسفیر نے میرا حوصلہ مزید بڑھایا۔ موصوف بھی اعلیٰ اخلا ق کے مالک ہیں اور افواج ِ پاکستان سے ان کو والہانہ محبت ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے قلم کی نوک اور سوچ کا محور بھی اس ملک کی بقاء اور امن و سلامتی ہے جس کا عملی مظاہر ہ وہ صحافت کے میدانوں سے گزشتہ تین دھائیوں سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔
موجودہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے لیکن پرنٹ میڈیا کی مثال آج بھی اپنی مثال آپ ہیں اور آج بھی لوگوں کی کثیر تعداد اخبار ہی کا مطالعہ کرتی ہے اور ہر خبر تصدیق شدہ زرائع اور پروف ریڈنگ جیسے مراحل سے گزرنے کے بعد اخبار کی زینت بنتی ہے۔
چاہے پرنٹ میڈیا ہو یا سوشل میڈیا، ٹویٹر ہو یا فیس بُک اس کا ستعمال ہمیشہ مثبت ہونا چاہیے۔ سوشل میڈیا ایک بے لگام گھوڑا ہے جہاں جس طرح کا چاہو مواد پھینک ڈالو کوئی پوچھنے والانہیں۔ اور شاید اسی کو ہم نے آزادی ِ رائے کا نام بھی دے رکھا ہے۔ ایک دوسرے کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اور اِ س ملک کی قدر و منزلت ہم سب پر فرض ہے۔
زندگی کے اس سفر کوبھی خوشگوار بنائیے۔ خوش رہیں۔ اور دوسروں کو خوش رکھیں۔
37