ڈیلی دومیل نیوز.مظفرآباد (نمائندہ خصوصی): سابق وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر راجہ فاروق حیدر خان اور سابق وزیر حکومت سید شوکت علی شاہ نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے موجودہ حکومت پر آزادکشمیر کے آئین، قانون، اور ریاستی تشخص کے خلاف اقدامات اٹھانے کا سنگین الزام عائد کیا ہے۔
راجہ فاروق حیدر نے انکشاف کیا کہ وزیراعظم آزادکشمیر نے ایک غیر ریاستی شخص کو تحفظ دینے کے لیے کابینہ سے غیرقانونی طور پر فیصلہ کروایا، حالانکہ عدالت کے فیصلے کی روشنی میں اس شخص — عاصم شریف بٹ — کا باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ جعلی ثابت ہوچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’اگر آج ہم خود غیر ریاستی افراد کو ریاستی حقوق دیتے رہے تو بھارت کی جانب سے 35-A کی منسوخی پر تنقید کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رہ جائے گا۔‘‘
“ریاستی آئین کے ساتھ کھلواڑ”
راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ وزیراعظم کا یہ اقدام آزادکشمیر کے آئین اور قانون کے ساتھ کھلا کھلواڑ ہے اور اس کے خلاف وہ ہر آئینی و قانونی فورم پر جانے کا اعلان کرتے ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ:
’’کل کو اگر یہ راستہ کھلا تو کوئی بھی آ کر یہاں ملازم، صدر، حتیٰ کہ وزیراعظم تک بھی بن سکتا ہے، جو ریاستی خودمختاری کے لیے ایک خطرناک مثال ہے۔‘‘
اسمبلی کا تقدس پامال، سپیکر خاموش
راجہ فاروق حیدر نے الزام عائد کیا کہ گزشتہ روز قانون ساز اسمبلی میں پولیس اور انتظامیہ نے ایوان کا تقدس پامال کرتے ہوئے سید شوکت علی شاہ کو گرفتار کرنے کی کوشش کی، لیکن اسپیکر اسمبلی اس صورت حال کو سنبھالنے اور ایوان کا وقار بحال رکھنے میں ناکام رہے۔
“جعلی باشندہ سرٹیفکیٹ پر سیاست” — سید شوکت شاہ
اس موقع پر سابق وزیر حکومت سید شوکت علی شاہ نے کہا کہ کئی سالہ عدالتی جنگ کے بعد بالآخر عدالت کے فیصلے میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ عاصم شریف بٹ کا باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ جعلی ہے۔ ان کے مطابق:
’’عاصم بٹ کوئی ایک بھی ایسی قانونی دستاویز پیش نہ کر سکے جس سے وہ ریاستی شہری ثابت ہو سکیں۔‘‘
انہوں نے الزام لگایا کہ سیاسی مقاصد کے تحت عدالت کے حتمی فیصلے کے باوجود سرکاری سطح پر غیرقانونی مداخلت کر کے ایک غیر ریاستی شخص کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے، جس سے ریاستی آئین و تشخص کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
“ہندوستانی بیانیے کو کیسے رد کریں؟”
سید شوکت شاہ نے سوال اٹھایا کہ جب خود ریاستی حکومت غیر ریاستی افراد کو ریاستی حقوق دیتی ہے تو پھر ہم ہندوستان کی جانب سے کشمیری تشخص کو ختم کرنے کی کوششوں پر تنقید کا کیا جواز رکھتے ہیں؟