8

یونیورسٹی آف کوٹلی کا 23واں سینٹ اجلاس صدر ریاست کی زیر صدارت، تعلیمی و ترقیاتی اہداف پر غور

ڈیلی دومیل نیوز.اسلام آباد (نامہ نگار) صدر آزاد جموں و کشمیر و چانسلر آزاد جموں و کشمیری یونیورسٹیز بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی زیر صدارت یونیورسٹی آف کوٹلی کا 23واں سینٹ اجلاس ایوان صدر کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔

اجلاس میں وائس چانسلر جامعہ کوٹلی پروفیسر ڈاکٹر ذکریا ذاکر، سیکرٹری صدارتی امور ڈاکٹر محمد ادریس عباسی، سابق جج سپریم کورٹ جسٹس یونس طاہر، سابق وائس چانسلر فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی راولپنڈی پروفیسر ڈاکٹر صائمہ حمید، سابق سیکرٹری منظور حسین چوہدری، چوہدری محمد محبوب ایڈووکیٹ، محمد حنیف ایڈووکیٹ، سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن چوہدری محمد طیب، اور ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے نمائندہ طارق اقبال سمیت دیگر سینٹ ممبران نے شرکت کی۔

جامعہ کوٹلی میں تدریسی اور ترقیاتی سرگرمیوں پر تفصیلی بریفنگ
اجلاس کے دوران پروفیسر ڈاکٹر ذکریا ذاکر نے صدر ریاست و چانسلر کو جامعہ کوٹلی کی تعلیمی کارکردگی، جاری منصوبہ جات اور درپیش چیلنجز سے تفصیلاً آگاہ کیا۔

صدر آزاد کشمیر نے وائس چانسلر کو ہدایت دی کہ جامعہ کے انتظامی و تدریسی معاملات کو یکسو کر کے تدریسی سرگرمیوں کو مؤثر اور پائیدار بنیادوں پر آگے بڑھایا جائے تاکہ طلبہ کو عالمی معیار کی تعلیم فراہم کی جا سکے۔

آزادکشمیر میں تعلیم کی ترقی اولین ترجیح: صدر ریاست
سینٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر و چانسلر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا کہ:

“آزاد کشمیر میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے تمام تر وسائل اور توانائیاں بروئے کار لائی جائیں گی۔ اس حوالے سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں برتا جائے گا۔”

انہوں نے اپنے ویژن کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

“میں جامعہ کوٹلی کو آکسفورڈ، ہارورڈ اور دنیا کی دیگر ممتاز یونیورسٹیوں کی صف میں دیکھنا چاہتا ہوں۔”

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یونیورسٹی میں معیارِ تعلیم کی بہتری، انفراسٹرکچر کی تکمیل، تحقیقی ماحول کی ترویج اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ معیار کے مطابق اقدامات اٹھائے جائیں۔

وائس چانسلر کا عزم و یقین دہانی
وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ذکریا ذاکر نے صدر ریاست کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کے ویژن کے مطابق کام کرتے ہوئے جامعہ کو عالمی سطح کی معیاری درسگاہ بنانے کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ:

“طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کی سہولیات، جدید تدریسی طریقہ کار اور تحقیقی ماحول کی فراہمی اولین ترجیح ہو گی۔”

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں