آج مغرب اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک مزید ترقی سے ہمکنار اور پاکستان جیسے اکثر ممالک ترقی اور شعور سے دور کیوں ہوتے چلے جا رہے ہیں؟یہ ایسا سوال ہے جو ان دنوں اکثر کیا جاتا ہے مگر ہم کسی ایک سیاسی لیڈر کو جیل سے اقتدار اور دوسرے کو اقتدار سے جیل بھیجنے کے چکروں سے نکلیں تو کوئی بات بنے،ہم تو عقل و دانش،شعور و آگہی اور ملک کو ترقی کی جانب جانے والے معاملات سے کوسوں دور ہیں، آپ کا کیا خیال ہے کہ مغرب اور اس سے پرے کے ممالک اتنے ترقی یافتہ کیوں ہیں؟ جبکہ مشرقِ قریب، مشرقِ وسطیٰ اور مشرقِ بعید کے ممالک ترقی کی دوڑ میں اس قدر پیچھے کیوں نظر آتے ہیں،حالانکہ براعظم ایشیا اور افریقہ افرادی قوت کے لحاظ سے مغرب کی نسبت زیادہ متمول ہیں، قدرتی وسائل بھی یورپ کی نسبت زیادہ ہیں، ایشیاء اور افریقہ روئے ارض پر دو ایسے براعظم ہیں جہاں سارا سال سورج چمکتا ہے اور موسم سال میں کئی رنگ بدلتا ہے جو زراعت کی لائف لائن ہے، مغربی ممالک کی طرح یہ خطے دبیز دھندوں، سلی سلی طویل بارشوں اور چنگھاڑتے طوفانوں کی زد میں نہیں رہتے، عقل اور شعور میں بھی ہم مغربی خطوں کے باشندوں سے کسی طور کم نہیں مگر وجہ ایک ہی ہے، وہ ہے منصوبہ بندی۔
ہم لوگ چند ماہ یا چند برسوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں جبکہ وہ دہائیوں اور صدیوں کی سوچ اپناتے ہیں،وہ ادراک کرتے ہیں کہ جو آبادی موجود ہے اس کی ضروریات کیا ہیں،کیسے پوری ہو سکتی ہیں اور اگلے دس، بیس، تیس برسوں میں آبادی میں جو اضافہ ہو گا اس کی ضروریات کیا ہوں گی اور یہ ضروریات کیسے پوری کی جا سکیں گی، یہاں یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ وہ اتنی گہری اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کیسے کر لیتے ہیں؟ اس کا جواب ہے برین ڈرین۔ ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر یا پس ماندہ ممالک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو اعلیٰ سہولیات، بھاری پے پیکیجز اور پُرکشش مراعات کے ساتھ ملازمتوں کی پیشکش کرتے ہیں تو کیا یہ بلا وجہ اور بے سبب ہوتا ہے؟ امریکہ نے 2005ء کے اوائل میں غیر ملکی سائنس دانوں اور ماہرین تعلیم پر ویزا پابندیوں کو کم کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو کیا یہ فیصلہ ایسے ہی کر لیا گیا تھا؟ ایسا نہیں ہے، یہ ایک سوچا سمجھا فیصلہ تھا جس کا مقصد با صلاحیت لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنا تھا، اسی وجہ سے ہمارے جیسے ممالک کے لاکھوں قابل نوجوان اعلیٰ تعلیم کے لئے یا بڑی بڑی اور پُرکشش سیلریوں کے لئے امریکہ،برطانیہ، یورپ اورکینیڈا روانہ ہوتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق بھارت سے ہر سال 10لاکھ کے قریب لوگ دوسرے ممالک جاتے ہیں،وہ زیادہ تر سکلڈ یعنی مکمل تربیت یافتہ ورکرز ہوتے ہیں، بھارت سے ہر سال کینیڈا ڈیڑھ لاکھ لوگ جاتے ہیں اور امریکہ جانے والے بھارتیوں کی تعداد 2 لاکھ سالانہ ہے، بھارت میں انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) اور انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ (آئی آئی ایم) عالمی معیار کی تعلیم فراہم کر رہے ہیں جبکہ مغربی ممالک کی نظر ان اداروں پر گہری ہے، یہاں تعلیم حاصل کرنے اور ہنر سیکھنے والے خاص دماغوں کو مغربی ممالک بشمول برطانیہ و امریکہ اپنے ہاں بُلا لیتے ہیں اور وہ انہیں اپنی ترقی اور بہترین کارکردگی کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
یہ حیرت کا باعث ہے کہ لوگ جہاں پیدا ہوتے، پرورش پاتے، تعلیم حاصل کرتے ہیں، صرف پیسے کی خاطر اس کو چھوڑ کر دوسرے ممالک چلے جاتے ہیں، نہیں محض اچھی سیلری اور مراعات ہی برین ڈرین کا باعث نہیں ہے، کسی ملک کی ابتر معاشی اور سیاسی صورت حال، آگے بڑھنے کے مواقع کا موجود نہ ہونا، عدم تحفظ اور غیر یقینی صورت حال وہ بنیادی اور بڑے مسائل ہیں جن کی وجہ سے لوگ ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ہمارے ملک کے نوجوان، کاروباری حضرات، انجینئرز، سائنس دان، ڈاکٹرز اور ٹیچرز بھی ملکی حالات سے اس قدر دل برداشتہ ہیں کہ لاکھوں روپے خرچ کر کے پاکستان چھوڑ رہے ہیں، ان میں سے کئی تاریک راہوں میں مارے بھی جاتے ہیں،ان کی خبریں بھی میڈیا کی زینت بنتی ہیں،اس کے باوجود بیرون ملک جانے کا سلسلہ جاری ہے اور بیرونِ ملک جا بسنے کے خواب دیکھنے والوں کی تعداد میں بھی کوئی کمی نہیں آئی،جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ2022 ء میں پاکستان سے سات لاکھ پینسٹھ ہزار افراد نے روزگار کے مواقع کی تلاش میں ملک چھوڑ دیا۔
ایسی خبریں معاشی اور سماجی امور کے ملکی ماہرین کو تشویش میں تو مبتلا کرتی ہیں لیکن اس کے بعد اصلاحِ احوال کے لئے ہوتا کچھ نہیں ہے، ایک رپورٹ کے مطابق ملک چھوڑ کے جانے والوں کی یہ تعداد دو ہزار اکیس میں دو لاکھ 25ہزار تھی اور دو ہزار بیس میں دو لاکھ 88ہزار تھی، مختلف شعبوں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو ملک سے ذہین اور ہنرمند افراد کا انخلا یہاں کے معاملات کو چلانے کے معاملے کو گمبھیر بنا دے گا، اگر لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ اس کی جتنی بھی توجیہات اور توضیحات پیش کی جاتی رہیں مگر ہمارے اربابِ بست و کشاد کو برین ڈرین سے ملک کو پہنچنے والے نقصان کا ادراک ہی نہیں ہے،اس کی روک تھام کے لئے کوششیں تو بڑی بعد کی بات ہے۔
مغرب محض دوسرے ممالک سے اعلیٰ ترین دماغ ہی درآمد نہیں کرتا بلکہ اس نے اپنا نظام تعلیم بھی اس طرح منظم و مرتب کر رکھا ہے کہ طلبہ و طالبات کو ہر حال میں تحقیق کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ تحقیق میں مشاق کوئی بھی فرد جو بات کرتا اور جو تحریر قلم بند کرتا ہے وہ مصدقہ ہوتی ہے، ویسے بھی تحقیق کا عمل بندے کو ہرلحاظ سے پرفیکٹ بناتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ پُرکشش تنخواہوں پر درآمد کئے جاتے ہیں تو کچھ مقامی طور پر بھی تیار کئے جاتے ہیں اور یہ سارے لوگ مل کر نئی سے نئی تحقیق کرتے ہیں جس کے نتیجے میں نئی نئی ایجادات ہوتی ہیں اور یہ دور کی کوڑی لانے کا عمل ہی دراصل مغرب کی تیز رفتار ترقی کا راز ہے، اتنی کاوشوں کے بعد کیا ترقی ان کا حق نہیں بن جاتا؟
صدر بائیڈن کے صدارتی دوڑ سے دستبرار ہونے پر سابق صدر باراک اوباما کا ردعمل بھی آگیا، تعریف کردی
بھارت ان معاملات کو بھانپ گیا ہے اور اس نے برین ڈرین کا سامنا کرنے کے لئے کچھ تیاری کر لی ہے، کچھ عرصہ قبل سلیکون ویلی میں ایک ہائی ٹیک لابنگ گروپ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ انتہائی ہنر مند بھارتی نژاد ٹیلنٹ جو ایک بار امریکہ چلا گیا تھا، وطن واپس آ رہا ہے، یعنی امریکہ کے برین ڈرین کو بھارت برین گین میں تبدیل کر رہا ہے۔
بھارت کے مالی حالات بہتر ہو رہے ہیں تو وہ لوگ جو اچھی ملازمتوں کے لئے بیرون ِملک چلے گئے تھے واپسی کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔،سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنے برین ڈرین کو روکنے کے لئے کچھ کر سکتا ہے؟ کچھ کر رہا ہے؟جبکہ ایک تازہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک چھوڑنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔
21