مسائل و مشکلات قوموں کی زندگی میں آتے ہیں اور شاید ہی دنیا کی کوئی قوم اور معاشرہ ایساہو جس کو کسی نہ کسی مشکل صورت حال سے نہ گزرنا پڑا ہو۔تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ قوموں نے جانفشانی سے مسائل و مشکلات کا سامنا بھی کیا اور ان کے حل کی طرف تیز پیش قدمی کرتے ہوئے ان سے چھٹکارا بھی حاصل کیا،اس کا سب سے اہم پہلو قوموں کی قیادتوں کا بحرانوں کے آنے سے پہلے اس کا ادراک اور پھر اس کے حل کے لیے پیشگی اقدامات ہوتے ہیں جن سے ایک طرف یا تو وہ بحران مکمل طور پرختم ہو جاتے ہیں یا کم از کم ان کے نقصانات کا لیول بہت کم ہو جاتا ہے اور ترقی یافتہ اقوام میں یہی اصول اپنایا جاتا ہے،دوسری صورت کسی بحران کے اچانک آ جانے سے فوری طور پر اس کے لیے کمر کس لینا اور کم سے کم وقت میں اس سے اپنی قوم کو نکال لینے کی مثالیں بھی جدید دنیا میں دیکھی جا سکتی ہیں،اس کا تیسرا درجہ مسائل کے پیدا ہو جانے کے بعد سست روی سے اس کے حل کی طرف پیش قدمی کرنا ہے جس سے کم از کم تاخیر سے ہی سہی لیکن اس مسئلے سے قومیں نکل آتی ہیں۔ ہمارا معاملہ ان تینوں سے مختلف ہے جو بہت حیران کن بھی ہے اور دنیا کیلئے ایک ٹیسٹ کیس بھی کہ ہم ان تینوں درجوں میں کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ یعنی نہ وقت سے پہلے بحرانوں اور مشکلات سے آگاہ ہو پاتے ہیں،نہ مشکل پیش آنے کے بعد اس کے لئے ذہنی و فکری اور عملی طور پراس کے حل کے لیے مستعد دکھائی دیتے ہیں اور تیسرے درجے میں سست روی سے بھی اس بحران سے قوم کو نکالنے کی کوشش کرتے کہیں دکھائی نہیں دیتے جس کے نتیجے میں ایک سے ایک بحران منہ کھولے کھڑا ہے اور اب چاروں طرف بے ترتیبی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔ آجکل پوری قوم بجلی کے شدید بحران سے دوچار ہے، ایک طرف بجلی کی اس شدید حبس زدہ موسم میں طویل لوڈشیڈنگ اور ٹرپنگ ہے اور دوسری طرف بلوں کا حجم اتنا بڑھ گیا ہے کہ جنھیں ادا کرنا اچھے خاصے مڈل کلاس طبقے کیلئے ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ بحران کوئی آج یا اچانک پیدا نہیں ہوا بلکہ دہائیوں سے اس کی بازگشت سنی جا رہی تھی،نہ سابقہ دور کے حکمرانوں نے اس پر قابو پانے کے لئے کوئی عملی قدم اٹھایا اور نہ ہی ابھی تک اس کے لئے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکا کہ آخر اس مشکل ترین صورت حال سے کیسے نکلنا ہے، جب اس نے زور پکڑا تو پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں آئی پی پیز کمپنیز سسٹم میں داخل کی گئیں جن کے ساتھ کئے جانے والے معاہدے کو اور اس کی ایماندرانہ عملداری کودیکھا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ ہم پھر بھی دنیا میں ایمانداری کے 160ویں نمبر پر کیسے آ گئے ہیں، بعد آنے والی حکومتوں نے بھی اس ظلم پر مبنی معاہدوں کو ختم کرنے اور اس بحران سے نکلنے کے لئے کوئی اور راستہ سرے سے اختیار ہی نہیں کیا اور اب کی خبروں کے مطابق ہمارے صاحبان اقتدار خود ان کمپنیوں کے شئیر ہولڈر یا پھر براہ راست مالک بن گئے جس نے اس وقت پوری قوم کا خون نچوڑ لیا ہے، ان کمپنیوں کے ساتھ ہونے والے حکومتی معاہدوں کے تناظر میں اس قوم کا اربوں روپیہ اب تک ان کی جیبوں میں جا چکا ہے اور مزید ان کا راستہ روکنے کے لئے عوامی فورمز کے سوا کسی بھی مقتدر حلقے میں اس کے خاتمے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔ اطلاعات کے مطابق ان کمپنیوں میں سے بعض تو ایسی ہیں جو اب فنکشنل بھی نہیں رہیں لیکن انھیں ابھی تک انہی معاہدوں کے تحت رقوم کی منتقلی کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور نوبت لوگوں کی اشیائے ضرورت کو بیچنے اور خودکشیوں تک پہنچ چکی ہے۔ ان کمپنیوں سے کئے جانے و الے معاہدوں کے بعد بہت سی حکومتیں تبدیل ہوئیں لیکن کسی نے نہ اس مسئلے کی حساسیت کو سمجھا اور نہ اس کے حل کے لئے پیش قدمی کرنے کی کوشش کی۔ ہم اس مشکل ترین صورت حال میں بھی نہ تو ان لاکھوں کروڑوں یونٹس کی فری دستیابی کے عمل کو بند کر سکے جو کسی نہ کسی مد میں بااختیار طبقے کو جوں کی توں نہیں بلکہ اضافے کے ساتھ حاصل ہو رہی ہیں، نہ بجلی چوری کے عمل کو روک سکے جس کا دائرہ پہلے سے کہیں زیادہ پھیل چکا ہے اور نہ ہی عام آدمی کو اس مشکل ترین صورت حال سے نکالنے کا کوئی راستہ ہمیں سجھائی دے رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ برطانیہ کے سفر کے دوران وہاں موٹر وے پر روشن لائٹوں میں سے ہر ایک کے بعد دو بند تھیں جس کے بارے میں اپنے دوست سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ یہاں کے ماہرین کے مطابق آج سے 20 سال بعد بجلی کی پیداوار اور کھپت میں کچھ اتار چڑھاؤ ریکارڈ کیا گیا ہے جس کے سبب اس پہ ابھی سے کام شروع کر دیا گیا ہے کہ ایک طرف تو بجلی کی بچت کرنے کا سب سے پہلے حکومتی عہدیدار اور سرکاری اداروں کو پابند کر دیا گیا ہے اور دوسری طرف جہاں جہاں سے بجلی بچائی جا سکتی ہے اس پر بھی عملی اقدامات شروع کر دیئے گئے ہیں اسی لیے آپ کو موٹر ویز پر ایک کے بعد دو لائٹیں بند دکھائی دے رہی ہیں۔ یعنی یہ لوگ عام پبلک کو تکلیف دئیے بغیر محض قومی اداروں کی اس بچت سے آنے والے دنوں میں اس بحران قابو پا لیں گے۔ کہنے کو یہ ایک چھوٹا سا واقعہ تھا مگر بطور پاکستانی اس نے مجھے سوچنے پر ضرور مجبور کیا کہ ترقی یافتہ اقوام کے بڑے اور قومی ادارے قوم کے لئے قربانی دیتے ہیں اور ہمارے یہاں پوری قوم ان اداروں اور صاحبان اقتدار کے لئے تختہ مشق بنی ہوئی ہے۔
54