کوئی بھی ملکی ادارہ لے لیں، ہر ایک کااعلیٰ عہدیدار متنازعہ نظر آئے گا، آدھی قوم اس کو تسلیم کرتی ہے اور آدھی نہیں،وزیراعظم شہباز شریف پارلیمنٹ کے قائد حزبِ اقتدار ہیں، مگر ان کا حال تو یہ ہے کہ نہ صرف آدھی قوم، بلکہ خود نون لیگ کے اندر بھی آدھی پارٹی انہیں دل سے وزیراعظم تسلیم نہیں کرتی،اسی طرح چیف جسٹس آف پاکستان ہیں، ان کے حوالے سے جو باتیں پڑھنے سننے کو ملتی ہیں،اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ آدھے پاکستانیوں کے چیف ہیں اور آدھوں کے نہیں ہیں، کچھ ایسا ہی حال آرمی چیف کا بھی ہے کہ ان کی حمائت اور مخالفت برابر ہے۔
کیا یہ عجب نہیں کہ ہمارے ہاں اعلیٰ ملکی اداروں پر تعینات ہونے والے معزز افراد تعیناتی سے قبل ہی متنازعہ بنائے جا رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ کو ہی لے لیجئے، اس کے باوجود کہ ان کا بطور جج ہائیکورٹ اور بعد ازاں بطور جج سپریم کورٹ اور ان دونوں سے قبل بطور وکیل کردار انتہائی شاندار رہا ہے۔ان کے کریڈٹ پر بہت سے اعلیٰ مقدمات،بلکہ اعلیٰ فیصلے بھی ہیں، مگر حال ہی میں اخبارات میں جو کچھ پڑھنے کو مل رہا ہے کہ اکتوبر میں ان کی تعیناتی کے بعد سپریم کورٹ انتخابات کو کالعدم قرار دے دے گی یا پھر بقول سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے، پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ اس کا چھینا ہوا مینڈیٹ واپس دلادے گی اور وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی، ایسی باتیں جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بننے سے پہلے اسی طرح متنازع کئے دے رہی ہیں، جس طرح ان سے قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تعیناتی کو منتازعہ بنایا گیا تھا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج وہ اقلیتی ججوں میں شمار ہو رہے ہیں، کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہاں جج صاحبان کمپرومائز کر رہے ہیں،ہر گز ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر یہ سچ ہے تو پھر ملک سے انصاف کا جنازہ کب کا نکل چکا اور سارے فیصلے دراصل من مرضیاں ہیں۔
اسی طرح چشم فلک نے دیکھا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تعیناتی سے قبل عمران خان نے اپنی مقبولیت کی بنا پر کیا بھد اڑائی تھی اور کس طرح پاک فوج کو میر جعفر اور میر صادق کے القابات کے ساتھ نیوٹرل کو جانور کہا تھا،اس ساری دھینگا مشتی کے سبب ملک میں جس انارکی نے جنم لیا، اس سے ہماری معیشت ابھی تک نبرد آزما ہے اور بچت کی کوئی سبیل میسر نظر نہیں آتی، خیال یہ تھا کہ عام انتخابات کے بعد یہ دھول بیٹھ جائے گی اور ہر کوئی اپنے اپنے کینڈے میں چلا جائے گا اور ملک ترقی کرے گا، مگر پھر فروری 2024ء کے انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو ایک اور سیاسی بحران نے جنم لے لیا جو بڑھ کر معاشی بحران بن چکا ہے۔ یہاں بھی لوگ الزام دیتے ہیں کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے جان بوجھ کر نون لیگ کو ہروایا، لوگوں کی تو چھوڑیئے نون لیگ کے میاں جاوید لطیف کی سنئے تو ان کے مطابق تو نواز شریف کی جیت بھی اسٹیبلشمنٹ کے سر صدقے ہی ممکن ہو سکی وگرنہ وہ بھی ہار ے ہوئے ہیں۔ویسے میاں جاوید لطیف کی منطق عجب ہے کہ انہیں تو اسٹیبلشمنٹ نے ہروا دیا مگر نواز شریف کو جتوا دیا اور اب اگر وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولیں گے تو وہ ان کا حلقہ بھی کھلوا دے گی۔ یعنی ہمارے ہاں عام عوام تو ایک طرف، سیاسی لوگ بھی ایسی یاوہ گوئی کرتے ہیں کہ کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے توچھپائے نہ بنے ایسی صورت حال پیدا ہو جائے۔
آپ پی ٹی آئی کو ہی لے لیجئے،اب مینڈیٹ مینڈیٹ کی رٹ لگا کر اکتوبر کے بعد ملک میں نئی قسم کی انارکی کا کھیل رچانے کا ارادہ رکھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ دسمبر تک اس کی حکومت ہو گی، کوئی ان سے پوچھے کہ آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد ان کی عقل کہاں گھاس چرنے نکل گئی تھی جب خود نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے آفر کی تھی کہ پی ٹی آئی مرکز میں حکومت بنائے، کیونکہ اس کی نشستیں زیادہ ہیں۔تب تو پیپلز پارٹی سمیت ایم کیوایم بھی دست تعاون بڑھانے کے لئے تیار کھڑی تھی، مگر تب پی ٹی آئی جانتی تھی کہ ملکی معیشت کے سدھار کے لئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا جو ایسی کڑی شرط کی فہرست لئے بیٹھا ہے، جس پر عمل درآمد سے عوام انہیں گریبانوں سے پکڑنے کے لئے چڑھ دوڑیں گے، اِس لئے تب تو پی ٹی آئی چپکے سے پتلی گلی سے نکل گئی اور آج جب کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو چکا اور بجٹ میں عوام میں زندگی اجیرن کرنے کے تمام اسباب اکٹھے کر کے نون لیگ کے سر پر گٹھڑی رکھ دی گئی ہے، پی ٹی آئی کو یاد آگیاکہ وہ اپنا مینڈیٹ واپس لے کر حکومت بنائے گی اور کہے کہ جو کچھ بھی برا ہوا ہے اس کی ذمہ دار نون لیگ ہے اور وہ اچھا کرے گی اور یوں اگلے پانچ سال مکمل ہو جائیں گے۔
مگر اس کا کیا کیا جائے کہ اگر آج ملکی ادارے اور ان کے سربراہان متنازعہ ہیں تو اس کارِ بد کا آغاز بھی انہی اداروں میں بیٹھے عہدوں کا لالچ رکھنے والے لوگوں نے ہی کیا تھا۔انہوں نے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے مخالفین پر اس قدر گند اچھالا کہ وہ سر کے بالوں تک اس گند میں لتھڑ گئے اور اب مخالفین تھوڑا سا بھی ہلتے ہیں تو وہی گند اُڑ کر ان لوگوں کے چہروں اور کپڑوں پر آن گرتا ہے،جو یہ گند اچھالنے میں لگے ہوئے تھے۔ افسوس تو یہ ہے کہ پورا ملک تیرے میرے میں تقسیم ہو چکا ہے اور تواتر کے ساتھ ایک دوسرے پر گند اچھالنے کی روش اپنائے ہوئے ہے۔یا اللہ! پاکستان کی خیر!!
32