چند روز سے یہ احساس شدت اختیار کر رہا ہے کہ معاشرے میں منفی رویوں اور معاندانہ سوچوں کی جڑیں گہری ہو چکی ہیں۔ ہم خطا کے پتلے اپنی آنکھوں میں شہتیر سموئے دوسروں کی خامیوں کے تنکوں کی تشہیر کر کے ایسے تسلی حاصل کرتے ہیں جیسے کوڑھی اپنے زخموں کو چھیل کر کرتا ہے۔ اچھائیوں اور مثبت باتوں کو ایسے نظر انداز کر دیتے ہیں جیسے کوئی کنجوس صاحبِ ثروت کھانے کی میز پر بیٹھے یتیم کو کرتا ہے۔ نہ جانے یہ حسد ہییا حسرت ہے جو ہمیں کوتاہ نظری اور تنگ نظری پہ مائل و مجبور کر دیتی ہے۔ یا مایوسی، تربیت کا فقدان اور امید کی عام کمی کا اس میں عمل دخل ہے۔
چند روز قبل بریگیڈئیر امتیاز احمد، جو کہ نوے کے اوائل میں ڈائریکٹر اینٹیلیجنس بیورو رہ چکے ہیں، کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں چند باوردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار بظاہر انکے بیٹے کی ایما پر انہیں گھر سے بیدخل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ ایک انتہائی ناخوشگوار منظر تھا۔ ایک 85 سالہ بزرگ شخص جو کہ بہت اعلی حکومتی عہدوں پر کام کر چکا ہے اور ایک طاقتور ڈائیریکٹر آئی بی تصور کیا جاتا تھا یوں چند اہلکاران کے رحم و کرم پہ تھا جو اسے بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑ رہے تھے۔ اصل بات جس نے مجھے اس ویڈیو سے زیادہ جھنجھوڑا وہ تھے لوگوں کے بے رحمانہ تبصرے۔ جیسے میں نے ذکر کیا بطور ڈائیریکٹر آئی بی اور اس سے پہلے آئی ایس آئی میں وہ بہت زور آور تھے اور ہر قسم کی کاروائی کر گزرتے تھے۔ تو جو لوگ انکو جانتے تھے یا جنہوں نے انکے دور میں ان اداروں میں کام کیا تھا یہ ویڈیو دیکھ کر کہتے پائے گئے کہ یہ عبرت کا سامان ہے کیوں کہ یہ اپنے دور میں فرعون بنا ہوا تھا۔ مجھے ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں ملا جس نے ان سے اس برتاو پر تاسف کا اظہار کیا ہو۔ اظہارِ ہمدردی تو دور کی بات ہے سب نے اس پر منفی جملے کسے۔ اور تو اور جو لوگ انکو جانتے تک نہیں وہ بھی ویڈیو پر لکھی تحریر کو دیکھ کر نامناسب تبصرے کرتے رہے۔
میں سوچنے پہ مجبور ہو گیا کہ کیا یہ تبصرے کرنے والے سب پاک صاف صالح سادھو ہیں۔ کیا انہیں اپنے اندر کوئی غلطی نہیں نظر آئی جو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پر چڑھ دوڑے۔ بلکہ خدا کا کردار ادا کرتے بھی نظر آئے اور فیصلے صادر کئیے کہ اسکو اسکے کرتوتوں کی سزا مل رہی ہے۔
بریگیڈئیر امتیاز احمد کو عرف عام میں بریگیڈئر بلّا بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ انکی بھوری روشن آنکھیں بہت نمایاں ہیں۔ میں نے انکے دور میں آئی بی میں خدمات انجام دیں۔ میں جانتا ہوں وہ یقینا کئی مرتبہ لائن کراس کر جاتے تھے جسکی انکو سزا ملتی رہی۔ انکے ہاتھوں جنہوں نے تکلیف اٹھائی انکا بولنا بجا ہو سکتا ہے۔لیکن یہاں تو سب پل پڑے جیسے انکے ساتھ زیادتی کی تھی۔ اسکا مطلب ہے کہ معاشرہ انجانی نفرت اور منفی سوچوں کا شکار ہے۔
لیکن جس امر نے مجھے منفی سوچوں میں غلطاں معاشرے سے مایوس ہونے سے بچایا وہ یہ تھا کہ اس ویڈیو کو دیکھنے والے چند لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے ایک بزرگ سے ایسا برتاو کرنے پہ تاسف کا اظہار کیا اور اس نافرمانبردار بیٹے کو کوسا جس نے بوڑھے باپ سے بدسلوکی کی۔ بس امید کی شمع جلانے کے لئیے ایک چنگاری ہی چاہئیے ہوتی ہے۔ میرے امید کے چراغ کی ٹمٹماتی لو توانا ہو گئی۔ سوچ روشن پہلو دیکھنے لگی۔ اسکے لئیے کوشش کرنی پڑی مگر نتیجہ خوش کن رہا۔ میں نے چند منٹ میں ہی مایوسی سے نجات حاصل کر لی۔
فون رکھا اور اخبار اٹھائی تو نظر ایک خبر پر پڑی کہ لاہور کے ایک تھانے کی پولیس نے کتوں کو مارنے کے الزام میں ایک شخص کیخلاف پاکستان انسدادِ بے رحمی حیوانات ایکٹ 1980 کے سیکشن 428 اور 429 کے تحت درج مقدمہ درج کیا۔ یہ ظالم شخص اپنی تفریح??کے لیے ڈنڈے کے ساتھ گلی کے کتوں پر بہیمانہ تشدد کرتا تھا۔ پولیس نے ملزم کو تھانے اور اینیمل ریسکیو سینٹر نے زخمی کتوں کو طبی امداد کیلئے سینٹر منتقل کر دیا۔
اس واقعہ نے امید دلائی کہ نظام اور عوام میں ابھی سکت ہے۔ اگر قانون بے زبان جانور کے لئییحرکت میں آ سکتا ہے تو انسانوں کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایک مثال نے بتا دیا کہ ریاست میں جان ہے۔
حقیقت یہ ہے روزانہ ایسی کئی چھوٹی مگر مثبت خبریں ہماری نظر سے گزرتی ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم انکو نظرانداز کرتے ہیں اور منفی خبر کو زیادہ دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔ میڈیا کو بھی اس عوامی رحجان کا ادراک ہے لہٰذا وہ سنسنی خیز اور منفی خبروں کو شائع کر کے یا نشر کر کے اپنی اشاعت و مقبولیت کو بڑھانے کی دوڑ میں بہت دور چلے جاتے ہیں۔ اس سے معاشرے میں منفیت اور مایوسی پھیلتی چلی جاتی ہے۔ بلکہ چپکے سے ہماری سوچ میں سرائیت کر جاتی ہے۔
منفی رویوں کے مصدر و ماخذ کو مزید گہرائی میں جا کر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ منفی رویے اکثر ذاتی تجربات، ثقافتی اثرات اور
?سیاسی و سماجی و اقتصادی عوامل کے امتزاج سے پیدا ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، معاشی بدحالی، سیاسی عدم استحکام، یا سماجی ناانصافیوں سے محرومی اور مایوسی کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایسا زہریلا رویہ افراد و معاشرہ دونوں کے لئیے مضر ہے۔
?منفی جذبات انتہائی متعدی ہو سکتے ہیں، خاص طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی وجہ سے جہاں معلومات کا بلا روک ٹوک پھیلاؤ منفی خبروں کو پنکھ لگا دیتا ہے۔یہاں پر تو سوشل میڈیا مادر پدر آزاد ہے۔ جس کی چاہے پگڑی اچھال دیں۔ جس کی چاہے فوٹو لگا دیں۔ جس پہ چاہے غلیظ و غلط الزام لگا دیں۔ اس کا کوئی تدارک اور شنوائی نہیں۔
حل یہی ہے کہ مناسب تربیت اور موثر قوانین کو یقنی بنایا جائے تاکہ ہم منفیت جیسے متعدی اور موذی مرض سے بچ سکیں اور معاشرے میں منفی سوچوں کے رحجان کی بیخ کنی ہو سکے۔
39