19

جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ زوال پذیر ہے ؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو پاکستانی معاشرے نے کسی عروج کو دیکھا ہی نہیں اور جب اس کا کوئی عروج نہیں تو پھر اس کا زوال کہاں سے آئے گا۔ جب پاکستان 1947 میں تقسیم کے نتیجے میں وجود میں آیا تو اس کی وراثت میں نو آبادیاتی دور کی ریاست اور اُس کے ادارے اُس کو ملے۔ ریاست اور عوام میں ایک خلیج حائل تھی کیونکہ ریاستی ادارے بنیادی طور پر عوام کے مخالف تھے۔ لہذا ابتداء ہی سے ریاست اور عوام میں کشمکش اور تصادم رہا۔ عوام نے ریاست کو اپنا دشمن سمجھا اور ریاست نے عوام کو فسادی اور امن و امان کو خراب کرنے والا تصور کیا۔ اس تصادم اور کشمکش کے نتیجے میں ریاست اور معاشرہ دونوں ہی پسماندگی کی جانب جاتے رہے اور یہ پسماندگی اس قدر بڑھی کہ اخلاقی قدریں، قانون، سماجی اور ثقافتی روایات سب ایک ایک کر کے بکھرتی چلی گئیں اور جب معاشرے میں چیک و بیلنس کی کوئی روایت باقی نہ رہے تو پھر ہر قسم کی بدعنوانی یا کرپشن جائز ہو جاتی ہے۔ تاریخ میں زوال کی گہرائی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ قو میں زوال کی اس گہرائی میں بدعنوانی اور ذہنی گراوٹ کی حالت میں سسکتی ہوئی اور گمنامی کی حالت میں زندگی گزار دیتی ہیں۔

ذاکٹر مبارک علی کی تصنیف ” تاریخ کے تراشے” سے اقتباس

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں