فرانسیسی فلسفی ژاں پال سارتر نے ایک مضمون ”میں کیوں لکھتا ہوں؟“ میں جہاں اپنے نظریہئ تخلیق کو واضح کیا ہے،وہیں یہ بھی کہا ہے جب کچھ لکھا جاتا ہے تو وہ کسی کتاب میں محفوظ ہو کر اگلی نسلوں تک پہنچ جاتا ہے۔وہ کتاب کو شعورِ انسانی کے ارتقاء کی اولین سیڑھی قرار دیتا ہے۔کتابوں کی صورت میں انسانوں تک علم و ادب اور سائنس، نیز تحقیق کا جو ورثہ منتقل ہوا ہے اُس کی مثال کوئی دوسری نہیں ملتی۔ میں سمجھتا ہوں انسانی تاریخ عہد بہ عہد تہوں پر مشتمل ہے اور ہر عہد اپنی کتابوں کے ذریعے محفوظ ہوا اور ارتقاء کا ذریعہ بنا ہے،اس لئے کتاب کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے،کتاب سے محبت کرنے والی قومیں ہی ثابت قدمی سے آگے بڑھی ہیں آج کتابوں کی دنیا میں دو کتابوں کا تعارف کرانا مقصود ہے،پہلی کتاب معروف شاعر، نقاد اور ماہر تعلیم پروفیسر کلیم احسان بٹ کا تازہ شعری مجموعہ ”خدوخال خاک ہوئے“ اور دوسرا سینئر شاعر اشرف نقوی کا مجموعہئ حمد و نعت ”حرفِ مدحت“ ہے،دونوں شاعر عصری ادب میں اپنا نمایاں مقام اور پہچان رکھتے ہیں۔
پروفیسر کلیم احسان بٹ شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں اور اِس وقت گورنمنٹ عبدالحق کالج جلالپور جٹاں گجرات کے پرنسپل ہیں۔اُردو کا مضمون ہے اور اس حوالے سے انہوں نے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تخلیقی ادب میں بھی بہت کام کیا ہے۔اُن کے متعدد شعری مجموعے اور تنقیدی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔”خدوخال خاک ہوئے“ اُن کا نیا شعری مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں غزلوں کے ساتھ ساتھ اسد اللہ خان غالب اور اقبال پر منظوم خراجِ عقیدت کے لئے لکھی گئی خوبصورت نظمیں بھی شامل ہیں۔ پروفیسر کلیم احسان بٹ کا تعلق گجرات سے ہے تاہم وہ ایک عرصہ تک راولپنڈی میں بھی مقیم رہے اور انہوں نے اسلام آباد، راولپنڈی کے ادبی حلقوں میں اپنی شاعری کے حوالے سے منفرد پہچان بنائی۔وہ ایک ایسی شخصیت کے مالک ہیں جو اپنے رویے،طور اطوار اور حسن ِ تعلق کے حوالے سے بھی قرینہ ئ ادب کا عکس نظر آتی ہے۔انہیں غالب و اقبال سے عشق ہے اور دونوں پر انہوں نے گراں قدر تحقیقی و تنقیدی کام بھی کیا ہے۔ان کی ایک خوبی یہ ہے کہ جب سے پرنسپل بنے ہیں اپنے کالج کو ادبی سرگرمیوں کا مرکز بنا دیا ہے۔ کانفرنسیں، مشاعرے اور مذاکرے اس کالج کے طالب علموں میں ادب سے محبت کا جذبہ ابھار رہے ہیں۔
اُن کا شعری مجموعہ ”خدوخال خاک ہوئے“ ادبی حلقوں میں بھرپور پذیرائی حاصل کر رہا ہے۔ پروفیسر کلیم احسان بٹ کی غزلیں یوں تو اپنا ایک علیحدہ تشخص اور مزاج رکھتی ہیں تاہم اس مجموعے میں شامل غزلیں اس صنف کے اُس ارتقائی عمل کا پرتو نظر آتی ہیں،جس نے غزل کی صنف کو کبھی بوسیدہ یا ازکارِ رفتہ نہیں ہونے دیا۔اس مجموعے کے حوالے سے کتاب میں ناقدین کے جو مضامین اور آراء شامل کی گئی ہیں، وہ بھی اس امر کی گواہ ہیں کہ پروفیسر کلیم احسان بٹ نے غزل کے میدان میں اپنی فکری جولانیوں کو بامِ عروج پر پہنچا دیا ہے۔ ممتاز نقاد اکرم کنجاہی کا اس مجموعے میں شامل تفصیلی مضمون اس حوالے سے خاصے کی چیز ہے کہ انہوں نے غزل کے تناظر میں پروفیسر کلیم احسان بٹ کی شعری خوبیوں اور شاعرانہ اوصاف کو بڑی جامعیت کے ساتھ ایک جگہ جمع کر دیا ہے۔اُن کی یہ رائے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔”کلیم نے اپنی غزل کی عصری رنگوں کے باوجود حثیت دلبری کی نفی نہیں کی اور جمالیات اور روحانیت کے عنصر کو معدوم نہیں ہونے دیا۔انہوں نے خارجی مشاہدات سے پہلو تہی نہیں کی تو غزل کے داخلی محرکات اور قلبی واردات سے بھی کنارہ کش نہیں ہوئے“۔میں نے اس مجموعے میں شامل غزلوں کو بڑی سرشاری کے ساتھ پڑھا ہے۔ان غزلوں میں وہ تمام اعلیٰ اوصاف شامل ہیں جو غزل کو صدیوں سے ایک مقبول صنف سخن بنائے ہوئے ہیں، مگر ایسا نہیں کہ پروفیسر کلیم احسان بٹ نے غزل کی روایت کو دہرایا ہے۔اُن کی غزل نہ صرف عصر حاضر کی حسایت کا عکس نظر آتی ہے بلکہ اُس کا حسن ِ بیان اُسے جدت سے ہمکنار کرتا ہے۔معروف شاعر اور کالم نگار ناصر بشیر کی یہ رائے بڑی صائب ہے۔”پروفیسر کلیم احسان بٹ کی غزلیں آپ جتنی بار پڑھیں گے،اتنی ہی بار لطف دیں گی“۔
ہم اک حصار حفاظت کے ڈر میں رہتے ہیں
دل و دماغ پر دشمن کا خوف طاری نہیں
وہ میرا مسئلہ مجھے تو کیسے سمجھے گا؟
کہ جس نے میری طرح زندگی گزاری نہیں
آج کی دوسری کتاب”حرفِ مدحت“ شیخوپورہ میں مقیم معروف اور صاحبِ کلام شاعر اشرف نقوی کا مجموعہئ حمدو نعت ہے۔ اشرف نقوی ایک قادر الکلام شاعر ہیں۔ شاعری کے اعلیٰ اوصاف اُن کے ہر مصرعے اور ہر شعر میں نظر آتے ہیں۔وہ غزل،نظم کے ساتھ ساتھ نعت اور حمد بھی کہتے ہیں اور کیا ڈوب کر کہتے ہیں۔ ”حرفِ مدحت“ میں شامل اُن کی پُر عقیدت و محبت شاعری قاری کو ایک عجب قسم کے سرشار لمحوں میں لے جاتی ہے۔اُن کی شاعری پر رائے دیتے ہوئے سرگودھا یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر خالد ندیم نے جو رائے دی ہے وہ اسی لئے اہم ہے کہ اُس میں اشرف نقوی کے شعری امکانات کو بھرپور طریقے سے اُجاگر کیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ”اشرف نقوی نے فن شاعری پر اپنی دسترس کو ہر سطح پر ثابت کیا ہے اور اُن کے بیشتر اشعار احساس دلاتے ہیں کہ اُن کے لئے حمد و نعت میں مزید امکانات موجود ہیں اور اگر وہ اس راہ پر مسلسل گامزن رہے۔ محسن کاکوروی، ظفر علی خان، احمد رضا خان، حفیظ تائب، ماہر القادری اور نعیم صدیقی کے قافلے سے جا ملیں گے“۔ حمد اور نعت ایسی شعری اصناف ہیں جن میں احتیاط کا دامن قدم قدم پر شاعر سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ حد ِ ادب کو فراموش نہ کرے۔ایک خالق کی ثناء ہے اور دوسری اُس کے محبوب کی عظمت کا بیان۔دونوں میں عقیدت و محبت کے جذبوں کی فراوانی بنیادی وصف کا کردار ادا کرتی ہے۔ اشرف نقوی کا وصف یہ ہے کہ انہیں ان دونوں اصناف میں اپنی عقیدتوں، محبتوں اور جذبوں کے اظہار کا موقع ملا۔اگرچہ اس سے پہلے وہ اپنی غزلیات کے دو شعری مجموعوں ”آخرش“ اور ”زادِ حرف“ میں اعلیٰ شعری اوصاف سے بہرہ مند ہونے کا ثبوت دے چکے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ جو غزل میں کامیاب ہوا،وہ صنف میں اپنا وجود منوا لیتا ہے،لیکن میرا خیال ہے نعت گوئی اور حمد دو ایسی اصناف ہیں جن میں صرف اچھی بطور ڈکشن، تراکیب و استعار یا انفرادیت یا دیگر شعری و فنی اوصاف ہی کام نہیں آتے،بلکہ ان کے لئے دِل میں عقیدت و محبت کی وہ شمع فروزاں ہونا ضروری ہے، جو جذبے کو ایماں سب ڈھالتی ہے۔”حرفِ مدحت“ میں شامل حمد اور نعت کو پڑھ کر یہ کہنے میں کوئی کلام نہیں کہ اشرف نقوی کے سینے میں یہ شمع نہ صرف روشن ہے بلکہ الفاظ کے پیکر میں ڈھل کر وہ قاری کے دِل کو بھی منور کر دیتی ہے۔
25