30

ہومیوپیتھی۔ ایک متبادل طریقہ علاج اے خالق سرگانہ

ڈیلی دومیل نیوز.بیماری ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ہر انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر واسطہ پڑتا ہے۔اِس کے حل کے لئے کوششیں بھی اتنی ہی پرانی ہیں جتنی بیماری۔ قدیم دور میں انسان نے بیماریوں کا علاج دھاتوں اور جڑی بوٹیوں میں ڈھونڈا۔ آج بھی جو دوائیاں کسی بھی طریقہ علاج میں بن رہی ہیں اُن کی بنیاد یہی ہے، بہت کم لوگوں کو اِس کا احساس ہو گا کہ جو مصالحے ہم اپنے کھانے کو لذیذ بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں دراصل اِن میں بہت سی بیماریوں کا علاج ہے اور اِن مصالوں کا استعمال پڑھے لکھے حکما نے شروع کرایا تھا۔ یونانی طبیب آج بھی انہی جڑی بوٹیوں سے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں لیکن اب یونانی طب ریسرچ کے فقدان کی وجہ سے بڑی حد تک متروک ہو چکی ہے اب ایلوپیتھی ہی بہترین طریقہ ئ علاج کے طور پر رائج ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہومیوپیتھی طریقہئ علاج بھی مفید ہے دونوں کا ظہور یورپ میں ہوا لیکن کچھ کم علمی اور غلط فہمیوں کی وجہ سے ہومیوپیتھی زیادہ مقبول نہیں ہے۔

مجھے 1980ء میں گلے کی ایک بیماری سے واسطہ پڑ گیا جسے Fharyngitis کہتے ہیں۔ میں مختلف ڈاکٹروں سے اِس کا علاج کرواتا رہا انگریزی طریقہ ئ علاج میں اس کی دوا اینٹی بائیوٹک ہے چونکہ یہ ایک زخم ہے اور پھر یہ پھیلتا جاتا ہے لیکن اینٹی بائیوٹک سے وقتی طور پر تو فائدہ ہو جاتا ہے لیکن بیماری ختم نہیں ہوتی۔ وقت گزرتا گیا مجھے ایک میڈیکل کے سٹوڈنٹ نے بتایا کہ دراصل اس بیماری کا کوئی علاج نہیں لیکن ڈاکٹر حضرات آپ کو یہ بات نہیں بتائیں گے۔ اسلام آباد میں قیام کے دوران ایک دوست مجھے ممتاز مفتی کے پاس لے گئے۔ مفتی صاحب علم و ادب کے علاوہ ہومیوپیتھی میں بھی دلچسپی رکھتے تھے اور مفت علاج کرتے تھے۔ یوں میرا اس طریقہئ علاج سے تعارف ہوا پھر میں فیصل آباد چلا گیا وہاں میرے دفتر کے قریب ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر محمد اشرف مرحوم کلینک کرتے تھے کسی طرح میرا اُن سے تعارف ہو گیا،جس کے ساتھ ہی اُن سے دوستی اور ہومیوپیتھی سے شغف بڑھتا گیا۔ فیصل آباد سے اسلام آباد واپسی ہوئی تو دنیا گھومنے کا موقع ملا۔ ایک دفعہ دورہ برطانیہ کے دوران میں نے وہاں ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر سے مشورہ کیا۔ پھر ایک دفعہ پیرس جانے کا اتفاق ہوا وہاں بھی مشہور شاہراہ شانزے لیزے میں ایک ڈاکٹر سے مشورہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب ظاہر ہے اعلیٰ میڈیکل کوالیفکیشن کے حامل تھے پھر ساتھ والے کمرے میں انہوں نے کچھ مشینی آلات بھی رکھے ہوئے تھے انہوں نے دوائی لکھ دی۔ بازار میں گئے تو پتہ چلا کہ پیرس میں ہر فارمیسی میں ہومیوپیتھک دوائی دستیاب ہے۔ کئی دفعہ امریکہ جانا ہوا وہاں بھی ہومیو پیتھک دوائیاں دستیاب ہیں۔

ایلوپیتھی ایک بہت ایڈوانسڈ طریقہئ علاج ہے اور اس کی ایجوکیشن اور دوسری تمام سہولتیں بھی عام دستیاب ہیں اور بلاشبہ اس میں ریسرچ بہت اعلیٰ سطح کی ہے اور اس سے بہت ساری بیماریوں کا کامیاب علاج ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود بہت ساری بیماریوں کا علاج اس سسٹم میں بھی دریافت نہیں ہو سکا مثلاً جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے Fharyngitis اورآنکھوں کی بیماری موتیا۔ موتیا کا آپریشن ہوتا ہے دوائی کوئی نہیں۔

اِس طرح کی اور بھی کئی بیماریاں ہیں،لیکن عام بیماریوں کے علاوہ ہومیوپیتھی میں ان بیماریوں کا بھی علاج موجود ہے۔ پھر انگریزی طب میں بہت ساری بیماریوں کے لئے مریضوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ انہوں نے یہ دوائی زندگی بھر استعمال کرنی ہے یعنی بیماری کو ختم کرنے کی کوئی دوائی نہیں بلکہ اِسے ایک سطح پر روکے رکھنا ہے پھر جتنی بیماریاں مریض بتاتا ہے اتنی ہی دوائیاں لکھ دی جاتی ہیں لہٰذا عموماً عمر رسیدہ آدمی روزانہ آٹھ آٹھ دوائیاں استعمال کر رہے ہوتے ہیں، لیکن ہومیوپیتھی میں صورتحال مختلف ہے آٹھ دس بڑی دوائیاں تو سر سے پیر تک سارے جسم پر اثر کرتی ہیں لہٰذا عموماً آپ تین چار بیماریوں کا علاج صرف ایک دوائی سے بھی کر سکتے ہیں پھر ان کے منفی اثرات بالکل نہیں یا بہت کم ہوتے ہیں جبکہ انگریزی دوائیوں کے منفی اثرات بہت نمایاں اور بعض دفعہ خطرناک ہوتے ہیں۔ ہومیوپیتھی دوائیاں انگریزی دوائیوں کی نسبت سستی ہوتی ہیں۔ ایلوپیتھی،ہومیوپیتھی اور یونانی دوائیاں بھی دھاتوں اور جڑی بوٹیوں سے بنتی ہیں صرف ہر سسٹم میں دوائی بنانے کا طریقہئ کار مختلف ہوتا ہے۔انگریزی دوائیوں کے تجربات جانوروں پر کئے جاتے ہیں،جبکہ ہومیوپیتھک دوائیوں کے تجربات انسانوں پر کئے جاتے ہیں۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہومیوپیتھک طریقہئ علاج بہت اچھا ہے تو پھر یہ مقبول کیوں نہیں۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں ایک تو دوائیاں باہر سے آتی ہیں،صرف لاہور میں ایک جگہ بن رہی ہیں۔سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی تعلیم بہت کمزور ہے۔ ایم بی بی ایس کے مقابلے میں پاکستان میں ہومیوپیتھی کا کورس کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ پاپولر نہ ہونے کی وجہ سے کوئی نوجوان اس کو پیشے کے طور پر نہیں اپناتا لہٰذا ہومیوپیتھی کورس کرنے والوں میں عموماً نیم خواندہ مثلاً کلرک اور ٹیچر لیول کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ مارکیٹ میں اس شعبے میں بہت کم صحیح کوالیفائیڈ ڈاکٹر دستیاب ہیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگرچہ اس کا تعلق اوپر بیان کی گئی صورت حال ہے وہ یہ کہ اس میں شفا کے امکانات بہت کم ہیں عام طور پر مذاقاً کہا جاتا ہے کہ یہ ہومیوپیتھک ٹائپ چیز ہے یعنی اس کا کوئی خاص اثر نہیں۔ اس صورت حال کی دو تین وجوہات ہیں ایک تو یہی کہ ڈاکٹر نیم خواندہ ہیں پھر جب وہ کلینک بناتے ہیں تو اخراجات پورے کرنے کے لئے کچھ غلط کام کرتے ہیں مثلاً ہر مریض کو پانچ چھ دوائیاں دے دیں گے تاکہ معقول رقم حاصل کر سکیں حالانکہ ہومیوپیتھی کے بانی کا نظریہ یہ تھا سنگل ریمیڈی یعنی ایک وقت میں ایک دوائی استعمال کریں۔ بعض بیماریوں میں کسی دوائی کی ہائی پوٹینسی کی ایک دو خوراکیں ہی کافی ہوتی ہیں لیکن ایک دو خوراکیں دے کر ڈاکٹر مریض سے معقول رقم وصول نہیں کر سکتا۔

تیسری وجہ یہ کہ ڈاکٹر دوائی کے استعمال سے متعلق پوری معلومات مریض کو نہیں دیتے مثلاً دوائی کھانے کا طریقہ اور پھر دوائی کھانے سے پہلے اور بعد میں کم از کم 20 منٹ کچھ کھانا پینا نہیں،حالانکہ کلینک میں دیوار پر یہ چیزیں لکھی ہونی چاہئیں، لیکن میں نے کہیں نہیں دیکھا۔ نتیجہ کہ مریض دوائی کی صحیح خوراک اور اِسے صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرتا اس لئے نتیجہ مایوس کن نکلتا ہے۔ بعض پڑھے لکھے لوگ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ ایک فراڈ ہے اگر یہ فراڈ ہے تو یہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ جیسے ملکوں میں کس طرح چل رہا ہے ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بہت بڑے بڑے ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہیں، جنہوں نے اس طریقہ علاج پر کتابیں لکھی ہیں۔ وہاں ہومیو پیتھک ہسپتال ہیں۔ میں اپنے مطالعے اور تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ یہ بہترین طریقہئ علاج ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایلوپیتھی سے پرہیز کرنا چاہئے سارے سسٹم انسانوں نے بنائے ہیں لہٰذاان سب میں کمزوریاں اور خامیاں موجودہیں۔انسانی جسم دنیا میں شاید سب سے پیچیدہ مشین ہے انسان تمام تر علم اور تحقیق کے باوجود ابھی تک اِسے مکمل طور پر نہیں سمجھ سکا۔ جس طرح ہر انسان کے چہرے میں معمولی سا فرق ہے اس لئے اُسے پہچانا جا سکتا ہے اِسی طرح ہر انسان کی کیمسٹری میں بھی معمولی فرق ہے، لیکن دوائیاں تو ایک جنرل فارمولے کے حساب سے بنتی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں