ڈیلی دومیل نیوز،پاکستان خصوصاً پنجاب اس وقت بدترین سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔ دریائے ستلج، راوی اور چناب میں غیر معمولی سیلاب نے ایک پریشان کن صورتحال پیدا کر دی ہے۔ پنجاب کے وسطی علاقے اس ”آبی آفت“ کا شکار ہو چکے ہیں۔ سیلابی پانی اب جنوبی پنجاب سے گزر رہا ہے اور رواں ہفتے سندھ میں داخل ہوگا۔ پھر کچے کی باری آئے گی جہاں سے گزر کر یہ پانی کوٹری بیراج کے راستے سمندر میں پہنچ جائے گا۔ انفراسٹرکچر کا اربوں کھربوں کا نقصان کرنے والا یہ کھربوں روپے مالیت کا پانی سمندر میں جا کے اس کھارے پانی کا حصہ بن جائے گا جو ہمارے کسی کام کا نہیں۔ ہم نے گزشتہ 78 سال میں اس”میٹھے پانی“ کو ”قبضے“ میں کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا اور جو بنایا اسے مکمل نہیں کیا یا مکمل ہونے نہیں دیا گیا یا مکمل کر نہیں سکے۔ ناکامیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ہر سیلاب کے بعد وزراء اور اعلیٰ افسر ”نئی در فنطنیاں“ چھوڑتے ہیں اور ”بری الذمہ“ ہو جاتے ہیں، لیکن اس مرتبہ انہونی ہو گئی ہے۔ طویل ترین عرصہ برسر اقتدار رہنے والے جنرل ضیاء الحق کے دست راست تحریک پاکستان کے کارکن خواجہ صفدر کے بیٹے جناب خواجہ محمد آصف نے جو فرمایا ہے اس پر یقین نہیں آرہا۔ خواجہ آصف نے جو کہ پاکستان کے وزیر دفاع ہیں اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت خصوصا میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف کے بے حد قریبی ہیں فرمایا ہے کہ بھارت نے ہمارے ساتھ کوئی آبی دہشت گردی نہیں کی۔ ان سیلابوں اور تباہیوں کی وجہ ہم خود ہیں۔ ہمارے دریاؤں اور نالوں پر کی گئی تجاوزات ہیں۔یہ سول انتظامیہ کی مکمل ناکامی ہے۔ سرکاری اہلکار، بلدیاتی ادارے، شہری حکومتیں سب ان تجاوزات اور قبضوں میں ملوث ہیں۔ انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہو گیا ہے، جس کی بڑی وجہ کرپشن ہے۔ بارش سے سڑکیں بہہ گئیں۔ ایکسین اور ٹھیکیدار اس کے ذمہ دار ہیں، مگر انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ 50 ہزار روپے میں ہونے والا کام سرکاری طور پر پانچ کروڑ روپے میں ہوتا ہے۔ سرکاری زمینوں پر پیشہ ور لوگ قبضہ کرتے ہیں۔ سرکاری زمینوں کی لوٹ سیل لگی ہے ہر کوئی قبضہ کر لیتا ہے۔ ان قبضوں کو ختم کرانے کے لئے سروے شروع کر رہے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا بھارت کے خلاف جنگ بھی پاک فوج نے لڑی اور اب سیلاب کے خلاف لڑائی بھی پاک فوج ہی لڑ رہی ہے۔
خواجہ محمد آصف کے اس بیان نے ایک دفعہ کے لئے تو پریشان کر دیا کہ ساری عمر جو لکھا وہ آج خواجہ آصف کہہ رہے ہیں۔ شکر ہے آج سرکار بھی اس میڈیا کی زبان بول رہی ہے جو عرصہ سے اشرافیہ اور حکمرانوں کو آئینے دکھا رہا تھا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ یہ سیلاب بھارت کی آبی دہشت گردی نہیں ہے۔ بھارت نے اپنے ڈیموں سے پانی ریلیز کرنے سے پہلے دو مرتبہ اطلاع دی تھی۔ قصوروار تو ہم ہیں جنہوں نے دریاؤں کی گزرگاہوں پر قبضے کر لئے۔
مگر اس کے برعکس وزیر پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈپٹی چیئرمین (پلاننگ کمیشن) سیکرٹری جنرل مسلم لیگ(ن) احسن اقبال نے جو 1997ء سے ”پاکستان کی ترقی“ کے لئے پالیسیاں بنا رہے ہیں فرمایا ہے کہ بھارت پانی اکٹھا کر کے بھیجتا ہے تاکہ تباہی زیادہ ہو۔ سیلاب بھارت کی آبی جارحیت ہے۔ اس نے پانی کو ہتھیار بنایا ہے۔
افروزٹیکسٹائلز کے ”بیڈ اینڈ باتھ“ ایکسپورٹ کوالٹی آؤٹ لیٹ کا افتتاح، ایکسپورٹ کوالٹی مصنوعات پیش کریں گے: فیروز عالم لاری
پانی ابھی سندھ نہیں پہنچا، لیکن سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری کا بیان آ چکا ہے جن کا فرمانا تھا بھارت کی آبی دہشت گردی خطرناک ہے۔ بھارت نے پانی جان بوجھ کر چھوڑا ہے۔
ہماری اشرافیہ، اعلیٰ سرکاری افسر، برسر اقتدار حکومتیں ہر سیلاب کے بعد ایسے ہی بیانات جاری کرتی ہیں جیسے احسن اقبال اور کامران ٹیسوری نے کئے ہیں کہ ہم قصور وار نہیں بھارت ذمہ دار ہے۔ یہ لوگ شاید پچھلا پڑھا ہوا بھول گئے یا اس کو یاد نہیں کرنا چاہتے۔ پنجاب پانچ دریاؤں کی زمین کہلاتا ہے، یعنی پانچ دریا جہلم، چناب، راوی، ستلج اور بیاس یہاں صدیوں سے بہتے چلے آرہے ہیں۔ ہماچل، اترا کھنڈ، مقبوضہ کشمیر اور بھارتی پنجاب سے گزر کر آنے والا گلیشیرز اور بارشوں کا پانی انہی دریاؤں کے راستے پنجاب میں آتا ہے اور دریائے سندھ میں شامل ہو کر سمندر تک جاتا ہے ہم نے کبھی یہ سوچا کہ اس پانی کو استعمال میں لایا جائے۔ سندھ طاس معاہدے کے بعد جب تک بھارت نے راوی اور ستلج پر ڈیم نہیں بنائے تھے سیلاب آتے تھے۔ 1988ء میں راوی میں ریکاڈ پانی آیا۔ لاہور کے موجودہ ڈپٹی کمشنر موسیٰ رضا کے مطابق شاہدرہ سے تین لاکھ 45 ہزار کیوسک کا انتہائی غیر معمولی ریلا گزرا۔ شاہدرہ کے مقام پر پانی کے گزرنے کی گنجائش دو لاکھ 50 ہزار کیوسک ہے، یعنی یہ ریلا گنجائش سے ایک لاکھ کیوسک زیادہ تھا۔ اس رات محمود بوٹی بند پر پانی بند سے صرف چند انچ نیچے تھا اور لگ رہا تھا کہ پانی بند توڑ کر لاہور میں گھس جائے گا، لیکن علی الصبح شاہدرہ کی طرف بند کو ڈائنامائٹ لگا کر اُڑا دیا گیا اور لاہور بچ گیا۔اس کے بعد کوئی بڑا سیلاب نہیں آیا۔ لہٰذا خواجہ آصف کے بیان کے مطابق پیشہ ور قبضہ گروپوں نے دریا کی گزرگاہ پر قبضہ کر لیا۔دریا کی گزرگاہ پر باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ آبادیاں بسا لی گئیں۔ کہیں زمین پر قبضہ کر لئے گئے۔ شاہدرہ پر دریا دو حصوں میں تقسیم ہو کر گزرتا ہے۔ دریا کے درمیان کامران کی بارہ دری ہے۔ مکینوں نے دریا کو خشک دیکھ کر پہلے تو اپنی بھینسیں اور جانور وہاں رکھے اور پھر انہوں نے گھر بنا لئے۔ اگر کچھ عرصے یہ سیلاب نہ ٓاتا تو یقینا یہ گھر کامران کی بارہ دری تک پہنچ جاتے۔ شکر ہے پانی دو لاکھ 25 ہزار کیوسک تک محدود رہا اگر یہ خدانخواستہ 1988ء جیسا سیلاب ہوتا تو کتنی تباہی ہوتی سوچ کر ڈر لگتا ہے۔ ہم میدانی علاقے میں دریاؤں کے کنٹرول کے لئے ڈیم نہیں بنا سکتے۔ بیراج بناتے ہیں جہاں سے نہریں نکال کے پانی بانٹا جاتا ہے، لیکن آج اگر دریائے جہلم، چناب، ستلج اور راوی کی گزر گاہوں پر دریاؤں کے ساتھ ساتھ وسیع جھیلیں ہر ضلع میں بنا دی جائیں تو وہ پانی زیر زمین پانی کی سطح بلند کرے گا۔ زمینوں کو سر سبز کرے گا۔ درخت بھی لگ جائیں گے، مگر بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے وزیر پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ احسن اقبال 29 سال سے ”ملک کی بہتری“ کے لئے پلاننگ کر رہے ہیں، مگر انہوں نے ایسی کوئی پلاننگ نہیں کی کہ اربوں کھربوں کے اس پانی کو سمندر میں جانے سے روکا جائے۔ دریاؤں کی گزرگاہوں کے ساتھ ہر ضلع میں گہری جھیلیں بنا کر ایسے غیر معمولی سیلاب کے پانی کو محفوظ کر کے مستقبل کے لئے بچانے کی پلاننگ نہیں کی گئی۔ کاش کے وزیر پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ اس بارے میں کوئی پلاننگ کریں۔ کاش اسٹیبلشمنٹ احسن اقبال کو اس حوالے سے ”آمادہ“ کر سکے تاکہ پاکستان میں بھی ایسا کچھ ہو سکے جو دنیا پانی محفوظ کرنے کے لئے کر رہی ہے۔