ڈیلی دومیل نیوز.آزاد کشمیر کے اندر ستمبر 29 سے 3 اکتوبر کی رات تک جاری رہنے والی 5 روزہ جنگ عوامی مظاہرین نے جیت لی ہے، مگر یہاں ایک بار پھر غور و فکر کی ضرورت ہے کہ کیا یہ جنگ آزاد کشمیر بمقابلہ پاکستان تھی؟ کیا ایک فریق کسی دشمن کے ایجنڈے پر کام کر رہا تھا؟ کیا یہ جنگ کشمیر کی آزادی کی جنگ تھی؟ نہیں، بالکل بھی نہیں یہ جنگ مجبور اور مغرور کا،مقابلہ تھا، اگر ہم تاریخ کے چند اوراق پلٹ کر دیکھیں تو دنیا کی تاریخ میں یہ جنگ بارہا لڑی گئی، کبھی عوام بمقابلہ بادشاہت، کبھی مظلوم بمقابلہ ظالم تو کبھی جمہوریت بمقابلہ آمریت، ایک وقت تھا جب سارے یورپ میں بھی دو طبقاتی نظام ہوتا تھا، ایک طرف بادشاہی ٹولے کے گھوڑے اور کتے مربے اور تازہ بوٹیاں کھاتے تھے تو دوسری طرف غریبوں کے بچے بھوکے اور علاج کے بغیر مر جاتے تھے، پھر جب عام آدمی نے سوچنا شروع کیا اور ایک دوسرے سے بات شروع کی کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟ تو تحریکیں بنتی گئیں، بادشاہتیں گرتی گئیں اور آج مغرب کے حکمران عوام کے سامنے جواب دہ ہیں، وزراء اور وزرائے اعظم کو شکوہ ہے کہ ان کی تنخواہ سے کئی شعبوں میں کام کرنے والوں کی تنخواہیں زیادہ ہیں، کشمیر کے اندر جس تحریک نے انگڑائی لی ہے اس پر میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اس کی بنیاد رکھنے والوں میں مرکزی کردار کشمیری قوم پرستوں یا خود مختار کشمیر کے نظریے والوں کا ہے مگر اس کی کامیابی میں مرکزی کردار عوام کا ہے جن کا نظریہ برابری یا سب کے حقوق برابر کا ہے، یہاں کوئی بھی پاکستان کے خلاف ہے نہ پاک فوج کی کسی کو تکلیف ہے۔
آزاد کشمیر میں جو عوامی حقوق کی تحریک چلی ہے وہ دراصل اپنے کشمیر کے حکمرانوں کے خلاف ہے ان کی بے اعتدالیوں اور ناجائز مراعات کے خلاف ہے، ساتھ ان کی بے بسی کے خلاف بھی ہے کیونکہ آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں پاکستان کی جماعتوں کی فرنچائز ہیں اس لیے وہ پاکستان میں اپنے آقاوں کی ہر بات پر عن و من عمل کرنے کے پابند ہیں، آزاد کشمیر حکومت کا قیام اس بنیاد پر ہوا تھا کہ یہ سارے کشمیر کی آزادی کا بیس کیمپ ہوگا اور اس کی حکومت آزادی کشمیر کی تحریک کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کے انتظامی معاملات بھی چلائے گی، اس وقت آزاد کشمیر میں ایک ہی سیاسی جماعت مسلم کانفرنس تھی بعد میں نئی سیاسی جماعتیں بھی وجود میں آئیں، وہ بھی کشمیری جماعتیں تھیں، مگر 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے پاکستان پیپلزپارٹی آزاد کشمیر کی بنیاد رکھ کر ایک نئے سلسلے کی ابتداء کر دی اور 2008ء میں میاں نواز شریف نے بھی اپنی جماعت مسلم لیگ ن آزاد کشمیر بنا دی، اس کے علاوہ دوسری پاکستانی سیاسی جماعتوں نے بھی آزاد کشمیر میں اپنے تانگے بنا رکھے تھے اور اب عمران خان نے بھی پی ٹی آئی آزاد کشمیر بنا کر ایک اور بڑی سیاسی فرنچائز کا اضافہ کر دیا ہوا ہے، مگر اس وقت آزاد کشمیر میں کسی بھی جماعت کی حکومت نہیں ہے تحریک انصاف کے باغی ایم ایل ایز کے ساتھ پیپلزپارٹی، مسلم کانفرنس اور ن لیگ نے مل کر حکومت بنائی تھی جس کے وزیراعظم پی ٹی آئی کے ایم ایل اے انوار الحق ہیں جو آدھی رات کو وزیراعظم بنتے ہوئے پی ٹی آئی کے ممبر تھے اور اگلے دن اعلان کر دیا کہ میرا کسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے، مسلم لیگ ن کے جیتے ہوئے ممبران وزارتوں کے مزے لے رہے ہیں اور ہارے ہوئے حزب اختلاف کا کردار ادا کر رہے ہیں اسی طرح پیپلزپارٹی کے جیتے ہوئے وزارتوں پر براجمان اور ہارے ہوئے حکومت مخالف، یہی وجہ ہے کہ ایکشن کمیٹی کا احتجاج کامیاب ہوا کیونکہ تمام جماعتوں کے کارکنوں نے ایکشن کمیٹی کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا ہے اور حکومت میں بیٹھے وزراء پاکستان حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو غلط اطلاعات دیتے رہے پاکستان حکومت نے بھی سوچنے سمجھنے کی زحمت نہیں کی حالانکہ آزاد کشمیر حکومت میں شامل تمام جماعتوں نے مل کر پونچھ میں پاور شو کا اعلان کیا اس جلسے میں موجودہ وزیر اعظم اور چار سابق وزراء اعظم سمیت آزاد کشمیر کے تمام سیاستدانوں نے شرکت کی، تمام راہنما خالی کرسیوں پر تقاریر کے جوہر دکھاتے رہے، ہم نے 29 ستمبر سے تقریبا دو ہفتے قبل پریس کانفرنس کر کے حکمرانوں کو انتباہ کر دیا تھا کہ ایکشن کمیٹی کے ساتھ میز پر بیٹھیں اور معاملات کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کریں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بھارت تو مقبوضہ کشمیر میں بربریت کر سکتا ہے مگر پاکستان کی فوج یا دوسری فورسز کبھی بھی کشمیریوں پر ہتھیار نہیں اٹھا سکتے اور نہ ہی ہم خطے میں افراتفری کے متحمل ہو سکتے ہیں مگر اربابِ اختیار نے وقت پر توجہ ہی نہیں دی اور تصادم کی صورتحال پیدا ہو گئی جس کے نتیجے میں درجن بھر لوگ جاں بحق ہوئے اور درجنوں زخمی ہو گئے، اربوں روپے کا مالی نقصان اور عوام کو شدید مشکلات اور ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑا، اس خاکسار سمیت تمام لوگوں نے متعدد بار متنبہ کیا کہ معاملے کو مذاکرات کی میز پر حل کیا جائے اور پاکستان کی تمام پارلیمانی جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل کمیٹی بنا کر مذاکرات کیے جائیں، بہرحال دیر آئے درست آئے کے مصداق پھر بھی شکر ہے کہ مذاکرات کامیاب ہو گئے اور کشمیر ایکشن کمیٹی کے متعدد مطالبات کو فوری طور پر تسلیم کر لیا گیا جبکہ چند مطالبات کیلئے کمیٹی بنا دی گئی ہے، اس سارے ہنگامے میں کچھ شرپسندوں نے پاکستان اور کشمیر کے بیچ رخنہ ڈالنے کی کوشش کی جسے دونوں فریقین نے ناکام بنا دیا فورسز آزاد کشمیر کی ہوں یا پاکستان کی سب ہماری ہی ہیں اور انکا کام ہر صورت میں قانون پر عملدرآمد کروانا ہوتا ہے، یہ تو حکمرانوں اور سیاستدانوں کی غلطی تھی کہ معاملات تشدد تک پہنچے اور قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔