جب کسی ریاست کا بحران عروج پر ہوتا ہے تو اس ریاست کے ادارے ایک دوسرے سے الجھ پڑتے ہیں اور سماج کے مختلف طبقات ایک دوسرے کا گریبان پکڑ لیتے ہیں، ان کی اس بات کے تناظر میں آج کے پاکستان کو دیکھا جائے تو لگتا ہے یہاں بھی بحران عروج پر ہے۔ ریاست کے ادارے ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں اور طبقات کے درمیان ایک واضح محاذ آرائی جا رہی ہے، المیہ یہ ہے اسے کوئی روکنے والا بھی نہیں۔ سپریم کورٹ میں جب نیب آرڈیننس کے حوالے سے سماعت ہو رہی تھی تو وزیراعظم شہبازشریف کا یہ جملہ بھی زیر بحث آیا کہ بعض جج کالی بھیڑوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس تھے ہم کالی بھیڑیں نہیں بلکہ کالے بھونڈ ہیں۔ اس کی وجہء تسمیہ یہ ہے کہ کالی شہد کی مکھی کسی کو خود سے نہیں کاٹتی البتہ اسے چھیڑا جائے تو حملہ کر دیتی ہے، اس سے پہلے اسی عدلیہ میں چھ ججوں نے ایک خط لکھ کر یہ الزام بھی لگایا کہ اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے ان کے اختیارات میں مداخلت ہو رہی ہے، یہاں تک بھی کہا گیا دھمکیاں مل رہی ہیں اور فیصلوں سے روکا جا رہا ہے، گویا اس وقت عدلیہ، انتظامیہ اور ایسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر نہیں بلکہ معاملہ سنگینی کی طرف جا رہا ہے۔ یہ ریاست کا ایک بڑا بحران ہے، پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک دوسرے کی حدود کو تسلیم نہیں کیا جا رہااور من مانی کی جا رہی ہے، یہ سب کچھ اس لئے بہت عجیب لگتا ہے کہ ہم ایک متفقہ آئین رکھتے ہیں جس میں ہر ادارے کی حدود و قیود کا تعین کر دیا گیا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ آئین میں عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کا ذکر ہے، اسٹیبلشمنٹ کا کہیں ذکر نہیں جو اب ایک بڑا ہوا بن کر سامنے آ چکی ہے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ آئین بنانے والوں کے نزدیک انتظامیہ میں اسٹیبلشمنٹ بھی شامل تھی، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا واضح طور پر اپنا وجود ہے اور اس کے اختیارات بھی یوں نظر آتا ہے کہ سب سے زیادہ ہیں۔
یہ ایک اتفاق ہے کہ جس دن راولپنڈی میں فارمیشن کمانڈروں کی میٹنگ ہوئی،جس میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے یہ کہا کہ 9مئی کے ذمہ داروں کا محاسبہ کئے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، اسی دن سپریم کورٹ میں ویڈیولنک پر حاضری کے دوران عمران خان نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 9مئی کی جوڈیشل انکوائری سے متعلق ایک درخواست سپریم کورٹ میں ایک سال سے پڑی ہے، اسے سنا جائے جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے کہا اس وقت سماعت نیب آرڈیننس کے حوالے سے ہو رہی ہے، اس پر توجہ دی جائے۔ گویا اس وقت ملک میں دو آراء چل رہی ہیں۔ ایک رائے وہی ہے جس کا اظہار فارمیشن کمانڈروں کے اجلاس میں کیا گیا ہے، جس کے مطابق گویا یہ واضح ہو چکا ہے نو مئی کے منصوبہ ساز، ذمہ دار اور فرنٹ مین کون ہیں، انہیں قانون کے کٹہرے میں لا کے سزا دی جائے۔ یہاں اس لئے ایک ابہام پیدا ہوجاتا ہے کہ 9مئی کے بعد ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا،ان پر مقدمات بھی بنائے گئے، سینکڑوں تو اب بھی جیلوں میں ہیں۔ان کے خلاف مقدمات بھی چل رہے ہیں، پھر اس کے بعد کس سے یہ کہا جا رہا ہے کہ 9مئی کے ذمہ داروں کا محاسبہ ضروری ہے جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف کا موقف ہے، جس میں یہ الزام لگایا جاتا ہے نو مئی لندن پلان کا حصہ تھا، اس میں تحریک انصاف کا کوئی ہاتھ نہیں۔ اب یہاں معاملہ الجھ جاتا ہے کیونکہ ایک طرف مدعی ہیں اور دوسری طرف ملزم، اس بات کا فیصلہ کون کرے کہ حقائق کیا تھے اور اصل ذمہ دار کون ہے؟ جب صورتِ حال اس نوعیت کی ہو تو ایک انکوائری ضروری ہو جاتی ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آ سکے۔ سپریم کورٹ کے سامنے اگر اس واقعہ کی جوڈیشنل انکوائری کرانے کے حوالے سے درخواست موجود ہے تو اس کی سماعت جلد اس لئے ہونی چاہیے کہ اس کی وجہ سے جو ایک کشیدہ فضا نظر آتی ہے، اس کا خاتمہ ہو سکے۔ تحریک انصاف کا تو یہ بھی دعویٰ ہے کہ عوام نے 9مئی کے الزامات کو 8فروری کے انتخابات میں رد کر دیا تھا اور دھاندلی نہ ہوتی تو آج ملک میں تحریک انصاف اقتدار میں ہوتی۔
ریاست کوئی صحرا میں کھڑا تنہا درخت نہیں ہوتی۔ یہ مختلف ریاستی اداروں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ یہ ادارے باہم مل کر ایک ایسا ماحول بناتے ہیں جو ملک کو امن، سلامتی اور خوشحالی کے ساتھ آگے لے جانے کا باعث بنتا ہے۔بدقسمتی سے ہم اس ماحول سے محروم نظر آتے ہیں، ہمارا یہ حال ہے کہ پارلیمنٹ موجود ہونے کے باوجود آرڈیننس جاری کر دیئے ہیں، حالانکہ یہ بھی مقننہ اور انتظامیہ کے درمیان کشیدگی کی ایک شکل ہے۔ قانون بنانا مقننہ کی ذمہ داری ہے، اسے انتظامیہ کیسے استعمال کرسکتی ہے، اس طرح عدل کرنا عدلیہ کا کام ہے اس میں انتظامیہ یا اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کیسے ہو سکتی ہے، اس طرح تو معاملات الجھ جاتے ہیں اور خراب بھی ہوتے ہیں۔ جمہوریت بھی انہی اداروں کے سر پر کھڑی ہوتی ہے،یہ ادارے کمزور ہو جائیں تو جمہوریت بھی کمزور ہو جاتی ہے جب آئین کو پس پشت ڈال کے من مانی تشریح کے ذریعے خود کو بالادست ثابت کرنے کی کوشش کی جائے تو بگاڑ کا پیدا ہونا مسلمہ امر ہے۔ ایک زمانے میں سپریم کورٹ کے بعض ججوں نے نواز شریف کو سسلین مافیا کہا تھا،وہ بھی غلط تھا اور اب شہبازشریف کا ججوں کو کالی بھیڑیں کہنا بھی غلط ہے۔ جب تک غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کی روایت نہیں ڈالی جائے گی ہم بحران سے نہیں نکل پائیں گے۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیں تو اور بات ہے، وگرنہ زمینی حقائق تو یہی ہیں کہ ہم بڑے مقاصد کو چھوڑ کر چھوٹے چھوٹے مقاصد میں الجھے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کو یہ سوچنا چاہیے کہ ملک کو ترقی کیسے دینی ہے، وہ اس بات میں الجھے ہوئے ہیں عمران خان کو سزائیں کیسے دلوانی ہیں اور ان ججوں کو معیوب کیسے قرار دینا ہے، جو انہیں میرٹ پر ضمانت دے سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں سارے سیاسی کیسز زیر سماعت ہیں اور جن کا فیصلہ جلد ہونا چاہیے تاکہ ملک بحران سے نکل سکے ان میں لمبی تاریخیں دے دی جاتی ہیں۔جہاں تک سیاسی محاذ کا تعلق ہے تو اس میں عجب ہڑبونگ مچی ہوئی ہے حالانکہ یہ وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں اور ملک میں موجود بے یقینی اور بحران کا کوئی حل نکالیں۔ چیلنج اتنے بڑے درپیش ہیں کہ ان پر ہمہ وقت توجہ دینے کی ضرورت ہے، مگر ہم اداروں کی کشمکش میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔
33