21

بنیادی تعلیم ہر بچے کا حق ہے شاہد محمود

ڈیلی دومیل نیوز.اگر ہم سوشل میڈیا کا جائزہ پیش کریں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان میں تعلیم یافتہ افراد کا تناسب سو فیصد تک پہنچ چکا ہے کیونکہ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے تو یوں لگتا ہے جیسے پورا پاکستان کیا مرد کیا خواتین سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور قوم کو درس دینے پر مامور ہو چکے ہیں۔ بچے کی پیدائش سے لے کر انسان کے قبر تک جانے اور وہاں انسان کے ساتھ کیا کچھ ہونے والا ہے سب کچھ بتانے کے لئے دانشور، محکما، حکیم اور تو اور سیاست دان اور صحافی بھی میدان میں آ چکے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ نوجوان خواتین،نوجوان لڑکے لڑکیوں اور نوبیاہتا جوڑوں کو جنسی تعلیم دینے کے لئے اپنی اپنی مہارت کا اظہار کررہی ہیں ان حالات میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہمارے ملک میں تعلیم کا تناسب پچاس فیصد سے بھی کم ہے تو لوگ یہی کہیں گے کہ ہمیں غلط فہمی ہوئی ہے اس لئے ہمیں پھر سے اپنے ملک میں تعلیمی تناسب کا جائزہ لینا چاہیے لیکن عالمی ادارے یا ملکی ادارے جو اس قسم کے سروے کرتے ہیں ان کے اعداد و شمار بھی تو غلط نہیں ہوتے کیونکہ یہ ادارے کسی بھی معاملے میں غلط اعداد و شمار پیش کریں گے تو ان پر حکومت قوم کو گمراہ کرنے کے الزام میں پابندی عائد کرسکتی ہے چونکہ یہ سارے ادارے باقاعدگی سے کام کررہے ہیں اور حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کررہی تو پھر یہ مان لینا چاہیے کہ یہ ادارے ٹھیک ہی تو کہہ رہے حیں۔

علامہ اقبال نے کہا تھا:

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نوری ہے نہ ناری ہے

لیکن کسی بھی عمل کو کرنے سے پہلے اس کے بارے میں علم حاصل کرنا ازحد ضروری ہوتا ہے جب کسی بھی عمل کے لئے بنیادی علم کا ادراک نہ ہوگا تو وہ عمل افادیت سے خالی ہوگا جیسا کہ علما کہتے ہیں کہ اگر آپ نماز صحیح طریقے سے ادانہیں کرتے تو نماز بے سود ہے اور وہ اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوتی اسی طرح اگر آپ کوئی بھی عمل اس کے قاعدے کے مطابق نہیں کرتے تو وہ عمل، عمل ناقص کہلائے گا۔ فارسی زبان تقریباً پندرہ سو سال پرانی ہے اور اردو زبان کی تشکیل و تعمیر میں 75فیصد حصہ اسی زبان کا ہے۔ اس لئے اس زبان کا تذکرہ یہاں بے عمل نہ ہوگا۔ فارسی میں ضرب المثل کا استعمال اس طرح کیا جاتا ہے۔ ایک جگہ کہا جاتا ہے کہ ”نقل راجہ عقل“یعنی نقل کے لئے عقل کی کیا ضرورت ہے اور دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ ”نقل راعقل باید“ یعنی نقل کے لئے بھی عقل کی ضرورت ہے۔ اب یہ نقل کرنے والے کی علمی بصارت یا قابلیت پر منحصر ہے کہ وہ کس ضرب المثل کو کہاں استعمال کرتا ہے یعنی کہ دونوں صورتوں میں علم کی ضرورت ہے۔

ہمارے ملک خصوصاً پنجاب میں تعلیمی اداروں خصوصاً پرائمری سے لے کر میٹرک تک جو اکھاڑ پچھاڑ کی جارہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت بنیادی تعلیم کے حوالے سے اتنی سنجیدہ نہیں ہے جتنا اسے ہونا چاہیے۔ مختلف سکولوں کو ایک دوسرے میں ضم کرکے ہزاروں اساتذہ کو ان کی نوکریوں سے فارغ کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ اساتذہ حکومت پر سوائے مالی بوجھ کے او رکچھ نہیں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جو بھی پنجاب حکومت میں تعلیمی شعبے کی خدمت کے لئے ادارہ بنایا جاتا ہے وہ اس کی اصلاح کے نام پر اس کی توڑ پھوڑ شروع کر دیتاہے۔ ہر نئے ادارے خصوصی تعلیمی ادارے میں جس بھی بیورو کریٹ کو تعینات کیا جاتا ہے وہ خود کو عقل کل سمجھ کر اس میں نئے نئے تجربات کا آغاز کرتا ہے جس سے پہلے سے موجود سکولوں میں موجود سسٹم ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتا ہے اور سارا بوجھ وزیراعلیٰ پر یہ کہہ کر ڈال دیا جاتا ہے کہ اوپر سے آنے والے حکم کے مطابق اصلاحات کی جا رہی ہیں جبکہ اصل میں پہلے سے موجود نظام کو اس قدر رسوا کیا جاتا ہے کہ دیکھنے اور سننے والا بھی قائل ہو جاتا ہے۔ حالانکہ ماضی قریب میں ریٹائر ہونے والے نوے فیصد بیورو کریٹس جو مختلف محکموں کے سربراہ رہے ہیں خود اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ اسی بنیادی نصاب تعلیم اور پرائمری سکولوں کے ٹاٹ سسٹم سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں جسے آج فرسودہ نظام تعلیم کہہ کر د کیا جا رہا ہے۔

ماہرین تعلیم کا یہ متفقہ فیصلہ ہے جب تک ہم بنیادی نظام تعلیم یعنی پرائمری سے میٹرک تک بچوں کو صحیح طور پر تعلیم یافتہ نہیں بناتے، اس وقت تک ہم ایسے گریجوایٹ پیدا نہیں کر سکتے جو ملک کی ترقی کے لئے کام کرنے کے اہل ہوں جبکہ اس کے برعکس ہمارے ان سکولوں کی حالت زار اور تعلیمی صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ سکولوں کے لئے ایک الگ دفتر قائم کرنے کے باوجود ہم وہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ ان سکولوں کے اساتذہ انتہائی کم تنخواہ کی وجہ سے معاشی مسائل میں بری طرح گھرے ہوئے ہیں جبکہ حکومت ان کو مزید بیروزگار کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ والدین اب اپنے بچوں کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں مہنگے داموں تعلیم دلانے پر مجبور ہیں اور غریب، متوسط طبقے افراد جن کی آمدنی بچوں کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھانے کی اجازت نہیں دیتی ان کے بچے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں جو بچے پرائمری تعلیم سے محروم ہوں وہ اعلیٰ تعلیم کا تصور کیسے کر سکتے ہیں۔ ہر سال آٹھ ستمبر کو عالمی سطح پر یوم خواندگی منایا جاتا ہے پاکستان میں بھی اس سلسلے میں تقاریب منعقد کی جاتی ہیں لیکن وہ محض نمائشی تقاریب کہلاتی ہیں جن کا تعلیمی میدان میں بہتری کا کوئی شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ یہ تقاریب محض نشتند، گفتند اور برخاستند تک محدود ہوتی ہیں اور اکثر تنظیموں کے لئے ان تقاریب کا مقصد فنڈز کا حصول ہوتا ہے۔ وہ فوٹو سیشن کے ذریعے فنڈز دینے والے اداروں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ملک میں خواندگی کے فروغ کے لئے بڑ اکام کررہے ہیں حالانکہ وہ محض اپنی حالت سدھارنے کے لئے کوشاں ہوتے ہیں۔ اگر ہر پرھا لکھا شخص ایک غریب بچے کو پڑھانے کی ذمہ داری لینے کے لئے راضی ہو جائے تو ہو سکتا ہے ہمارے ملک میں پڑھے لکھے لوگوں کا تناسب 100فیصد تک پہنچ جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں