40

عوام کے منتخب کردہ ارکان پارلیمینٹ کیا مراعات لیتے ہیں؟میاں اشفاق انجم

پاکستان کا موجودہ پارلیمانی نظام آٹھ عدد بلاکس پر مشتمل ہے نمبر 1پارلیمنٹ330ارکان، سینیٹ104،پنجاب اسمبلی 371 ارکان، سندھ اسمبلی168 ارکان، خیبرپختونخوا اسمبلی124 ارکان، بلوچستان اسمبلی65ارکان، گلگت بلتستان اسمبلی 33 ارکان، آزاد جموں و کشمیر 49ارکان، ٹوٹل1256 ارکان۔ پاکستان میں حکمرانی کرنے والوں کی کل تعداد تقریباً1256 کے قریب ہے۔ پاکستان کے پارلیمانی نظام، قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل ہے آج کی نشست میں عوام کے منتخب کردہ ارکان اسمبلی، ارکان پارلیمینٹ کے منتخب کردہ سینیٹرز کیا کیا مراعات لیتے ہیں،عوام کو اس کے بدلے کیا دیتے ہیں زیر بحث لانا ہے اس کے علاوہ سٹینڈنگ کمیٹیوں کے ارکان کی مراعات کیا ہیں؟ ان کو سفری الاؤنس، ٹریولنگ الاؤنس، پٹرول و دیگر مراعات کیا کیا ملتی ہیں آج قارئین کے علم میں لانا ہے۔ پارلیمینٹ میں آنے یا پارلیمینٹ میں بیٹھنے، پارلیمینٹ سے واپس جانے کا بھی معاوضہ وصول کرتے ہیں، پارلیمنٹ کا ہر اجلاس، پارلیمینٹ کی ہر کمیٹی کا اجلاس سرکاری خرچ پر منعقد ہوتا ہے۔
ہمارے منتخب کردہ نمائندوں کے کھابے، بجلی، سرکاری ملازم، سرکاری چیئرمین کمیٹی کے پاس گاڑی، ڈرائیور، سٹینو گرافر، پی آئی اے میں سفر کرنے کے لئے ٹکٹ، سرکاری علاج۔ دلچسپ امر یہ ہے اضافی مراعات تنخواہ کے علاوہ ہیں۔قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کل کمیٹیوں کی تعداد69 ہے، کمیٹیوں کے 69 چیئرمینوں کے پاس گاڑی سرکاری، ڈرائیور سرکاری پٹرول ہوتا ہے۔اندھیر نگری کہہ لیں یا دوہرے نظام کی عکاسی، عوام کے منتخب کردہ1256 افراد پارلیمینٹ میں جاتے ہیں، منتخب کروانے والوں کے لئے آج تک کچھ نہیں کیا گیا، غریب کا ہسپتالوں میں کوئی پُرسانِ حال نہیں، کوئی دفتر ایسا نہیں جہاں پیسے دیئے بغیر اپنا کام کراتے ہوں۔ ایک بات جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، پارلیمینٹ قانون سازی کے لئے ہوتی ہے آج تک عوامی مفادات کے تحفظ کا کوئی قانون پاس نہیں ہوا ہے، جب بھی حوالہ دیا جاتا ہے1973ء کے آئین کا دیا جاتا ہے۔ملک میں دو قانون ہیں وہ انہیں لوگوں کی وجہ سے ہیں ایک اربوں روپے لوٹ کر بھی لیڈر، دوسری طرف روٹی چرا لیں تو پولیس کی چھترول۔ اربوں روپے کی لوٹ مار کرنے والے ارکان اسمبلی اور معمولی چوری کے مقدمات میں ملوث غریب کئی کئی سال جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں۔ اب ہم جائزہ لیتے ہیں ارکان قومی اسمبلی کتنی مراعات لے رہے ہیں ماہانہ تنخواہ تین لاکھ، ٹیلیفون الاؤنس8000،سپلیمنٹری الاؤنس 10 ہزار، ریلیف الاؤنس 15ہزار اگر چیئرمین سٹیئرنگ کمیٹی ہیں 25ہزار، اس طرح کل چار لاکھ سے زائد روپے بنتے ہیں، کمیٹی کی میٹنگ میں حاضری اور اجلاس میں حاضری کے الاؤنس۔ ڈیلی الاؤنس 4800 ہیں، آرڈرنری2800، ہاؤسنگ الاؤنس 2080، کنوینس الاؤنس 2000، اجلاس کے آغاز سے پہلے تین دن اور بعد کے تین دن کمیٹی کے اجلاس کے دو دن پہلے اور دو دن بعد الاؤنس ملے گا، ٹریول الاؤنس میں بائی ایئر بزنس کلاس150 ٹکٹ + ریل اے سی کلاس، بائی روڈ سفر10کلو میٹر، ایک لیٹر پٹرول فری ٹریولنگ، تین لاکھ کے فری ووچر،90ہزار سالانہ الاؤنس، ہر ممبر پارلیمینٹ کو دفتر اور گھر میں ٹیلیفون فری لگانے اجازت ہے، میڈیکل کے حوالے سے22ویں گریڈ کے برابر فری میڈیکل کی سہولیات ملتی ہیں۔چیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی پارلیمانی سیکرٹری کے اجلاس میں 2800 روپے، خصوصی الاؤنس4800 روپے، ڈیلی الاؤنس 2800 روپے اور خصوصی الاؤنس 4800 روپے ملتا ہے اور یہ سب کچھ ماہانہ تنخواہ کے علاوہ ملتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے منتخب ارکان اسمبلی مخصوص نشستوں کے لئے منتخب ہونے والی خواتین، سینیٹرز، مشیر وزیراعظم، ایڈوائزر ٹو وزیراعلیٰ، ایڈوائزر وزیراعظم سب کی تنخواہوں میں اور ہر اجلاس میں آنے جانے کا ٹی اے ڈی اے علیحدہ ہے،پٹرول علیحدہ ہے، سفری اور میڈیکل کی سہولیات علیحدہ علیحدہ ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی، ڈپٹی سپیکر کی تنخواہ اور الاؤنس علیحدہ ہیں، سپیکر قومی اسمبلی کے اختیارات،عملہ کی بھرتی سمیت اخراجات کی مد میں بھی بااختیار بنایا گیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے پاکستانی عوام کے کروڑوں خاندان بے گھر ہیں، چھت کے بغیر ہیں ارکان اسمبلی،سینیٹرز، وزراء، مشیر، ایڈوائزر کو دفاتر اور رہائش کی ذمہ داری بھی حکوت کی ہے اگر کوئی مشیر، ایڈوائزر، سپیکر، ڈپٹی سپیکر سرکاری رہائش نہیں لے گا اُس کو اِس کا علیحدہ معاوضہ طے ہے، وہ ملے گا۔ ٹیلیفون، بجلی بل، گیس، پٹرول اور دفتری اخراجات گورنمنٹ برداشت کرے گی۔ سرکاری رہائش میں سکیورٹی، ٹیلیفون، بجلی حکومت کے ذمہ ہو گی۔سپیکر کے لئے ڈیلی الاؤنس ایک ہزار روپے ملے گا ٹورز پر جائیں تو اخراجات گورنمنٹ برداشت کرے گی۔ ارکان اسمبلی وزراء، سپیکر، ڈپٹی سپیکر، مشیر اور ایڈوائزر چھٹی لے سکتے ہیں ان کی مراعات کم نہیں ہوں گی، ماہانہ، سالانہ میڈیکل ٹریولنگ الاؤنس اور دیگر مراعات جاری رہیں گی۔ ارکان صوبائی اسمبلی وزیراعلیٰ اور وزراء ماہانہ تنخواہ اور الاؤنس لینے کے حق دار ہیں۔ اجلاسوں،سٹینڈنگ کمیٹیوں میں آنے جانے اور لوازمات، اجلاس، ٹی اے ڈی اے بھی حکومت کے ذمہ ہو گا۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے بتاؤں گا، حکومت پارلیمانی سیکرٹری کی نامزدگی کرتی ہے ان کے لئے بھی گاڑی تنخواہ، ڈرائیور،دفتر، پٹرول، ماہانہ تنخواہ اور الاؤنس مقرر ہیں اس کے ساتھ صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے لئے قائم ہوسٹل میں بہت ہی مناسب کرایہ پر دفاتر فراہم کیے جاتے ہیں،مہمانوں کے لئے کمرے الاٹ ہوتے ہیں،قومی اسمبلی کا کیفے 80فیصد سستا رکھا گیا ہے اِسی طرح سینیٹ کا کیفے بھی مہمانوں کی سہولت کے لئے بنایا گیا۔ 80فیصد سے زیادہ رعایتی سبسڈی دے کر سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں ارکان صوبائی اسمبلی تنخواہ اور الاؤنس کے علاوہ رہائش، دفاتر، سکیورٹی اور ڈیلی الاؤنس کی ادائیگی کا باقاعدہ قانون موجود ہے۔دلچسپ انکشاف ہوا ہے قوم کی خدمت عوام کو ریلیف دینے کا وعدہ کر کے آنے والے ممبران کو سالانہ 35,54,70,00000 روپے سرکاری خزانہ سے ادا کیے جاتے ہیں۔بلوچستان اسمبلی کل نمبر65، تنخواہ فی ممبر125,000، کے پی کے145ممبر، تنخواہ 150,000،سندھ اسمبلی168ممبر تنخواہ 175,000، پنجاب اسمبلی371ممبر،تنخواہ قومی اسمبلی ممبران 342 تنخواہ تین لاکھ، سینٹ ممبران104،چار لاکھ ماہانہ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں