15

پاکستان عدلیہ اور الیکشن وسیم امجد محمود

پاکستان کی تاریخ میں 12 جولائی 2024ء جمعہ کا دن ایک اہم دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا جب پاکستان کی سپریم کورٹ کے فل بینچ نے ایک آئینی پٹیشن پر ایک لمبی بحث کے بعد ماہرین کے اندازوں سے بھی بڑھ کر فیصلہ دیا۔
فل بینچ کی سماعت میں دلائل کے دوران مختلف مراحل آتے رہے۔ معزز جج صاحبان وکلا پر سوالوں کی بوچھاڑ کرتے رہے دلائل کے درمیان تلخ کلامیاں بھی ہوئیں لیکن زیادہ زور آئین کی تشریح کے متعلق اور استحقاق کی بات پر تھا۔ اکثرجج صاحبان کا سوال یہ تھا کہ کیا اتنی تعداد میں آزاد امیدوار اپنے بل بوتے پر کامیاب ہوئے ہیں یا وہ کسی نظریہ یا پارٹی کے نام پر الیکشن لڑ رہے تھے۔ مدعی کو تو چھوڑیں اس پر تو حکومت اور الیکشن کمیشن کے وکلاء بھی متفق نظر آتے تھے کہ وہ تمام ممبران تحریک انصاف کے فورم سے ہی الیکشن لڑنا چاہتے تھے لیکن ان کا زور تکنیکی پہلوؤں پر تھا کہ انہوں نے آزاد حیثیت میں الیکشن جیتا اور وہ ایک ایسی پارٹی میں شامل ہوئے جو خواتین اور اقلیتی سیٹوں کے حصول کے لئے اہل نہ تھی کیونکہ اس جماعت کے ٹکٹ پر کسی ممبر نے الیکشن میں حصہ ہی نہ لیا۔ اگرچہ یہ نقطہ اپنے اندرخاصا وزن رکھتا تھا لیکن ان کی یہ بات معزز جج صاحبان کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ متناسب نمائندگی کی تقسیم کے فارمولا کے تحت دوسری پارٹیوں کو ان کی اہلیت سے زیادہ کیسے سیٹیں دی جا سکتی ہیں جبکہ ان کی تعداد کم ہے۔
سنی اتحاد کونسل اور پاکستان تحریک انصاف کے وکلاء نے اس نقطہ پر زور دیا کہ اصل میں تو یہ تمام لوگ پی ٹی آئی سے ہی تھے لیکن نہ تو ان کو بلے کے نشان پر الیکشن لڑنے دیا گیا اور نہ ہی ان کے کاغذات بطور پی ٹی آئی امیدوار کے قبول کئے گئے۔ جج صاحبان بھی کیونکہ اسی پاکستان کے ہی باسی ہیں اور تمام واقعات ان کی نظروں سے گزرتے رہے ہیں کہ کہاں پر کس سے زیادتی ہوئی اور کس نے کس انداز سے زیادتی کی۔ جمہوریت وہ نظام ہے جس میں لوگوں کی رائے کی اہمیت ہوتی ہے یہ نہیں دیکھا جا تا کہ اس وہ اس کام کا اہل بھی ہے یا نہیں۔ جب آئین پاکستان ووٹر کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ جس کو چاہے اپنا نمائندہ مقرر کرے اور اس نے باوجود روکاوٹوں کے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تحریک انصاف کے نمائندوں کو ووٹ دیے ہیں تو پھراس کے ووٹ کی ہرسطح پرسرعام تذلیل کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے۔
اس مقدمہ کے دوران تمام ججوں نے متفقہ طور پر قرار دیا کہ سپریم کورٹ کے نشان کے بارے میں کئے گئے فیصلے کی الیکشن کمیشن نے غلط تشریح کی ہے اور اس کو باقاعدہ فیصلے کا حصہ بھی بنایا ہے۔ نیز جج صاحبان کا یہ اظہار بھی کہ الیکشن کا کردارتحریک انصاف کے مقدمہ میں ایک پارٹی طور پر ادا کرنا، الیکشن کمیشن کی آزاد حیثیت پر بہت بڑا نشان ہے۔ پاکستان کا ایک بچہ بھی جس میں ذرہ بھر سمجھ اور عقل ہے اس بات کو سمجھتا ہے کہ ان الیکشن سے پہلے ہر وہ طریقہ آزمایا گیا کہ جس سے عمران خان کے امیدوار اپنے کاغذات جمع نہ کروا سکیں اور اگر انہوں نے مشکلات کے دریا کو عبور کرکے اس میں کامیابی حاصل کر لی تو ووٹر کو پولنگ سے روکنے کے تمام حربے آزمائے گئے لیکن پھر بھی جب وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے تو پھر جھرلو پھیر کر نتائج بدلے گئے۔ اس میں اتنی غلطیاں کیں کہ وہ ان سے سنبھل نہیں رہیں اگر تحریک انصاف کے ملک میں ووٹرز اتنی اکثریت میں ہیں تو کیا الیکشن کے عملہ میں ان کے ہمدرد نہ ہوں گے جنہوں نے دانستہ ایسی غلطیاں کیں جن کو پکڑنا پارٹی کے لئے مشکل نہ تھا۔
متناسب نمائندگی کے مقدمہ میں گیارہ جج صاحبان نے یہ تو طے کر دیا ہے کہ تحریک انصاف ایک سیاسی پارٹی تھی اور ہے فرق صرف طریق کار ہی تھا کہ کتنے ممبران پی ٹی آئی کے ہیں یا ہونے چاہئیں لیکن فیصلہ میں 41 امیدواروں کو دوبارہ یہ موقع دیا ہے کہ وہ اپنی وابستگی پندرہ دن کے اندر جس جماعت کے ساتھ چاہے ظاہر کریں۔
سپریم کورٹ کے اس جرائت اور انصاف پر مبنی فیصلہ پرمختلف آراء دی جا رہی ہیں حکومت کے ترجمان اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ جج جانبدار ہوگئے ہیں اور لاڈلوں اور منظور نظر کو سہولت بہم پہنچا رہے ہیں ہر کسی کو حق ہے کہ وہ تہذیب کے دائرہ میں رہ کراپنا نقطہ نظر پیش کرے لیکن اپنا تجزیہ پیش کرنے سے پہلے انصاف کے دامن کو نہیں چھوڑنا چاہئے۔ کیا حکومتی ارکان کو نظر نہیں آتا کہ ہر قسم کے جبر کے باوجود اگر تحریک انصاف کو لوگوں نے ووٹ دیے ہیں تو اس کا احترام کریں نہ کہ اپنی کرسی بچانے کے لئے عدلیہ کے میرٹ پرکیے گئے فیصلہ میں کیڑے نکانے کی کوشش کریں۔
پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے جس میں قرآن اور سنت کو آئین کا منبع اور سرچشمہ قرار دیا گیاہے۔ اسلام حکمرانوں کو انصاف کا حکم دیتا ہے جھوٹ اور بے ایمانی سے حقدار کے حق مارنے کو ناجائز قرار دیتا ہے۔ یہاں تک حکم ہے کہ انصاف کرنے والے کی تو بات بہت بڑی ہے، اپنے باپ،بھائی یا قریبی رشتہ دار کے حق میں جھوٹی گواہی سے بھی منع فرماتا ہے اور گواہی جھوٹی ثابت ہونے پراس شخص کی گواہی کو آئندہ قبول کرنے سے سختی سے منع فرماتا ہے۔
سپریم کورٹ دوران سماعت ریمارکس اوراپنے فیصلہ میں جب الیکشن کمیشن کو جانبدار اور قصور وار قرار دیتا ہے تو پھر چیف الیکشن کمشنر اوراس کے چاروں ممبران کا ان کے عہدوں پر چمٹے رہنے کا کیا جواز بنتا ہے۔ کیا ایک شخص یا چند اشخاص کا عہدوں سے چمٹے رہنا انصاف کے منافی نہیں۔ حکومت تو ہی جانبدار وہ تو الیکشن کمیشن کے ممبران کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے گی۔ اس لئے اب کیا سپریم کورٹ کے معزز ججوں کا فرض نہیں بنتا کہ وہ الیکشن کمیشن کے ممبران کے خلاف جوڈیشنل ریفرنس بھیج کر کم ازکم یہ مثال قائم کر دیں کہ جان بوجھ کر جانبدار افسران کو ملک میں مزید بگاڑ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر ایک دفعہ کسی نے قصور وار کے خلاف کاروائی کر کے سزا دلوا دی تو ملک میں اعلیٰ عہدے پر فائز کوئی بھی افسر کسی غلط کام کو کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچے گا۔ اللہ تعالیٰ نے سپریم کورٹ کوماضی میں اپنے اوپر لگے داغوں کو دھونے کا ایک نادر موقع دیا ہے اب دیکھنا کہ کون کتنا ملک کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے اور ذمہ داروں کے خلاف مناسب کاروئی کرتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں