یہ خبر پڑھ کے تو میرے دل پر چھریاں سی چل گئی ہیں کہ آئی پی پیزمالکان نے ملک کو کس بے دردی سے لوٹا ہے اور ان کی لوٹ مار کا سارا بوجھ غریب عوام کو برداشت کرنا پڑا اور اب بھی کررہے ہیں۔ البتہ مجھے خبر کے اس حصے پر اعتراض ہے کہ ان کی لوٹ مار کا بوجھ حکومتیں برداشت کرتی رہیں، حکومتیں تو اس سارے کھیل میں شامل تھیں جن معاہدوں کے بارے میں کہاجا رہا ہے وہ ظالمانہ اور غیر منصفانہ ہیں، وہ معاہدے کیا ان کمپنیوں سے فرشتوں نے کئے تھے؟ ہمارے حکمرانوں نے چاہے وہ ایک جماعت سے تھے یا دوسری جماعت سے، ان معاہدوں کی منظوری دی۔ آج کہا جا رہا ہے کیپسٹی چارجز کی شق بڑی لوٹ مار کا باعث بنی ہے اور بعض کمپنیوں کو بغیر بجلی بنائے اربوں روپے ادا کئے گئے۔ یہ شق شامل کرتے ہوئے حکمرانوں کو خیال کیوں نہیں آیا۔ کیا ان مالکان نے ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلی تھی، ان کمپنیوں کے بارے میں شور مچا ہے، عوامی ردعمل سامنے آیا ہے اور جماعت اسلامی نے ان معاہدوں پر نظرثانی کے لئے دباؤ ڈالا ہے تو حقائق سامنے آ رہے ہیں، یہ حقائق اس قدر ہوشربا ہیں کہ ان کے بارے میں سوچ کر حیرت ہوتی ہے، کیسے دن دہاڑے اس طرح کی ڈکیتی ہوتی رہی اور ہمارے حکمرانوں کو خبر تک نہ ہو سکی۔ مثلاً یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے ان کمپنیوں کے مالکان پاکستانی ہیں، تاہم انہوں نے غیر ملکی کمپنیوں کا روپ دھار کر معاہدے کئے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکیں۔ حکومت اب بھی پردہ پوشی کررہی ہے۔ حالانکہ ضرورت اس امرکی ہے ایسے مالکان کے نام سامنے لائے جائیں اور یہ بھی بتایا جائے انہوں نے اب تک کتنے ارب روپے بغیر بجلی دیئے لوٹے ہیں۔ تھوڑی سی ہمت دکھائی جائے تو ان سے یہ لوٹی گئی رقم نکلوانے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے۔ ایک غریب ملک کی غریب قوم کے ساتھ یہ ظالمانہ سلوک اگر پاکستانی مالکان کررہے ہیں تو ان کے دل میں خوف خدا ہے اور نہ اس بات کا خوف کہ عوام مجبور ہو کر کوئی بھی انتہائی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ حکومت نے صرف پانچ کمپنیوں کو نوٹس دیئے ہیں، جبکہ ضرورت اس بات کی ہے بجلی کمپنیوں سے کئے گئے تمام معاہدوں کو از سر نو کیا جائے اور آج کے حالات اور معاشی مشکلات کو پیشِ نظر رکھ کر معاہدے کئے جائیں۔ انکار کرنے والی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کر دیا جائے وہ عالمی عدالتِ انصاف میں جاتی ہیں تو جائیں تاکہ عوام کو معلوم ہو سکے وہ کون سی جونکیں ہیں جو عوام کارہا سہا لہو بھی نچوڑ رہی ہیں۔
پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنے کے جتنے بھی دعوے کئے جائیں، ان معاہدوں کی موجودگی میں ان دعوؤں پر عمل نہیں ہو سکتا۔ آج پورے ایشیا میں بجلی کا سب سے مہنگا یونٹ پاکستان میں ہے جس ملک میں بجلی اتنی مہنگی ہو، اس کی معیشت کیسے بہترہو سکتی ہے۔ معیشت کی بہتری کا انحصار زرمبادلہ کی آمد پر ہوتا ہے۔ زرمبادلہ کی آمد کے دو ذرائع ہوتے ہیں، ایک وہ پاکستانی جو بیرون ملک ہیں اور ترسیل زر پاکستان بھیجتے ہیں۔ دوسرا ذریعہ برآمدات ہیں جس ملک کی برآمدات اس کی درآمدات سے زیادہ ہوں، وہ خوشحال اور خود کفیل ہوتا ہے۔ ہمارا یہ حال ہے درآمدات اگر سو روپے کی کرتے ہیں تو برآمدات دس روپے کی ہوتی ہیں۔ یوں خسارہ بڑھتا جا رہا ہے اور اسے کم کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ قرض پہ قرض لیا جا رہا ہے، حتیٰ کہ نوبت اب یہاں تک آ گئی ہے کہ دوست ممالک بھی قرض دینے سے انکاری ہیں، آئی ایم ایف کے نخرے ختم نہیں ہوئے اور وہ کڑی شرائط کے باوجود قرضے کی قسط دینے یا معاہدہ کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتا ہے، اب یہ خبریں بھی آ چکی ہیں کہ اگر آئی ایم ایف سے بروقت معاہدہ نہ ہوا تو منی بجٹ پیش کرنا پڑے گا جس میں تین ٹریلین روپے کے نئے ٹیکس لگانے ہوں گے۔ اب اندازہ کریں اس وقت عوام روٹی کھانے کے محتاج ہو چکے ہیں اور ان پر مزید کئی کھرب روپے کے ٹیکس لگا دیئے گئے تو مہنگائی کی صورت حال کیا ہوگی اور معیشت کا پہیہ کیسے چلے گا۔ حل ایک ہی ہے کہ ملک میں صنعتوں کا پہیہ چلایا جائے تاکہ ان کی پیداوار کو برآمد کرکے زرمبادلہ ملک میں لایا جا سکے۔ ابیہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم اپنی پیداواری لاگت میں کمی نہیں لاتے۔ دنیا میں ایک مقابلے کا رجحان ہے۔ ایک چیز جو ہم عالمی مارکیٹ میں دو سو روپے کی فراہم کرتے ہیں اگر وہی چیز بھارت، بنگلہ دیش یا سری لنکا ایک سو روپے میں فراہم کرنے کو تیار ہوں تو ہمارا مال کون لے گا۔ دوسری طرف ہم نے ٹیکسوں کی بھرمار کر دی ہے۔ صنعتوں کو سہولتیں دینے کی بجائے ان پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر ہم سرمایہ کاروں کو کیسے متوجہ کر سکتے ہیں۔ حالت یہ ہے سرمایہ کار اپنے صنعتی یونٹس بند کرکے دبئی اور دیگر ممالک میں صنعتیں لگا رہے ہیں۔
ان حالات میں ایک روائتی راستہ تو وہی ہے جس پر ہماری ماضی و حال کی حکومتیں چلی رہی ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لو، بجلی مہنگی کرو، ٹیکس پر ٹیکس لگاؤ، ٹیکس نیٹ میں اضافہ کئے بغیر دہرے ٹیکسوں کا نظام رائج کرو اور اپنا وقت گزار کے کھربوں روپے کا مزید قرضہ چڑھاکے اگلی باری کا انتظار کو، اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ نوبت آخری حد تک آ گئی۔ وزرائے خزانہ بھی درآمد کرکے دیکھ لئے،بات نہیں بنی۔ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد، ڈھاک کے وہی تین پات، دعوے اور بس خالی دعوے اب حکمران جب خوشحالی آنے کی باتیں کرتے ہیں ہنسی نہیں رونا آتا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے بندۂ خدا آخر آپ نے کون سے نئے اقدامات کئے ہیں، جن سے خوشحالی آ سکتی ہے۔ وہی دقیانوسی اقتصادی پالیسیاں، وہی قرضوں پر کھڑی معیشت، وہی مہنگی بجلی اور وہی ادارہ جاتی کرپشن، کیا الٰہ دین کا چراغ ہاتھ آ گیا ہے جسے رگڑ کر ہر طر دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی۔ باقی باتیں تو چھوڑو، صرف ان بجلی بنانے والی کمپنیوں کی لوٹ مار ہی ختم ہو جائے تو ملک کی معیشت کو ایک بڑا ریلیف مل سکتا ہے مگر یہ بیل بھی آسانی سے منڈھے نہیں چڑھے گی کیونکہ اشرافیہ کا ان کمپنیوں پو پورا دست شفقت موجود ہے اور باتوں کے سوا کوئی عملی قدم اٹھائے جانے کی امید نہ ہی رکھی جائے۔
27