اگر آپ اچھا رزق کما رھے ہیں تو یقین جانیں اس میں آپ کی ذہانت یا صلاحیتوں کا کوئی کمال نہیں، بڑے بڑے عقل کے پہاڑ خاک چھان رھے ہیں۔
اگر آپ کسی بڑی بیماری سے بچے ہوئے ہیں تو اس میں آپ کی خوراک یا حفظانِ صحت کی اختیار کردہ احتیاطی تدابیر کا کوئی دخل نہیں۔ ایسے بہت سے انسانوں سے قبرستان بھرے ہوئے ہیں جو سوائے منرل واٹر کے کوئی پانی نہیں پیتے تھے مگر پھر اچانک انہیں برین ٹیومر، بلڈ کینسر یا ہیپاٹائٹس سی تشخیص ہوئی اور وہ چند دنوں یا لمحوں میں دنیا سے کوچ کر گئے۔
اگر آپ کے بیوی بچے سرکش نہیں بلکہ آپ کے تابع دار و فرمانبردار ہیں، خاندان میں بیٹے بیٹیاں مہذب، باحیا و با کردار سمجھے جاتے ہیں، تو اس کا سب کریڈٹ بھی آپ کی تربیت کو نہیں جاتا کیوں کہ بیٹا تو نبی کا بھی بگڑ سکتا ھے اور بیوی تو پیغمبر کی بھی نافرمان ہو سکتی ھے۔
اگر آپ کی کبھی جیب نہیں کٹی، کبھی موبائل نہیں چھنا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بہت چوکنّے اور ہوشیار ہیں،
بلکہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اللّٰہ نے بدقماشوں، جیب کتروں اور رہزنوں کو آپ کے قریب نہیں پھٹکنے دیا تاکہ آپ ان کی ضرر رسانیوں سے بچے رہیں۔
یہ غالباً ہر انسان کی فطرت ھے کہ جب وہ خود دوسروں سے اچھا کما رہا ہو تو یہ سوچنا شروع کر دیتا ھے کہ وہ ضرور دوسروں سے زیادہ محنتی، چالاک اور منضبط (organised) ہے اور اپنے کام میں زیادہ ماہر ہے۔ پھر وہ ان لوگوں کو حقیر سمجھنا شروع کر دیتا ھے جن کو نپا تلا رزق مل رہا ہے، ان پر تنقید کرتا ھے، ان کا مذاق اڑاتا ھے۔ مگر جب یکلخت وقت کا پہیہ الٹا گھومتا ھے تو اس کو پتہ چل جاتا ھے کہ حقیقت اس کے برعکس تھی جو وہ سمجھ بیٹھا تھا۔
اگر کوئی چاہتا ھے کہ اسے رزق کے معاملہ میں آزمایا نہ جائے تو تین کام کرے:
اوّل: جو کچھ مل رہا ھے اسے محض مالک کی عطا سمجھے نہ کہ اپنی قابلیت کا نتیجہ اور ساتھ ہی مالک کا شکر بھی بجا لاتا رھے۔
دوئم: جن کو کم یا نپاتلا رزق مل رہا ھے انہیں حقیر نہ جانے نہ ان لوگوں سے حسدکرے جن کو “چھپر پھاڑ” رزق میسر ھے۔ یہ سب رزّاق کی اپنی تقسیم ھے۔ اس کے بھید وہی جانے۔
سوئم: جتنا ہو سکے اپنے رزق میں دوسروں کو شامل کرے۔ زیادہ ھے تو زیادہ، کم ھے تو کم شامل کرے۔ سب سے زیادہ حق، والدین اور رحم کے رشتوں کا ھے.
24