چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف فتویٰ دینے والے تحریک لبیک پاکستان کے نائب امیر ظہیر الحسن شاہ کو گرفتار کر کے مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، تھانہ قلعہ گوجر سنگھ میں درج مقدمے میں دہشت گردی سمیت12دفعات شامل ہیں، 1500 کارکنوں پر بھی مقدمات درج کیے گئے ہیں، ریل بازار فیصل آباد میں بھی چھ قائدین سمیت700کارکنوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ ریاست نے اس حوالے سے بہت جلد اور شدت کے ساتھ ری ایکٹ کیا ہے اور معاملات کو آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی کامیاب کاوش کی ہے۔
نبی کریمؐ تمام دنیا کے اہل حرم کے ایمان کا محور و مرکز ہیں۔ آپؐ جناب اس سلسلے کی کڑی ہیں،جس کا آغاز ابراہیم علیہ السلام سے ہوتا ہے آپ اِس سلسلے کی انتہاء،تکمیل اور آخری کڑی ہیں، آپؐ سلسلہ انبیاء کے آخری نبی ہیں، آپؐ کے بعد سلسلہ نبوت و رسالت ختم ہو چکا ہے۔آپ کو اللہ رب العزت نے قرآن کی شکل میں اپنا مکمل پیغام دے دیا جو آپ نے انسانوں تک پہنچایا۔اسی پیغام کی روشنی میں اسی منشاء خدا وندی کے مطابق آپ نے صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت تیار کی۔ ایک ریاست قائم کر کے قیامت تک ایک نمونہ پیش کر دیا۔اللہ رب العزت نے قرآن میں کہا کہ نبی کریمؐ کی ذات مبارک میں اہل ایمان کے لئے نمونہ ہے یعنی آپؐ کے افعال و اقوال، آپ کی زندگی کا رہن سہن ہمارے لئے قابلِ تقلید نمونہ ہے ہم مسلمان نبی کریمؐ کو اپنے ایمان کا ایک جزو لاینفک مانتے اور جانتے ہیں۔ آپؐ کی ذات اقدس ہمارے ایمان کا محور و مرکز ہے۔ حج ہو یا عمرہ، اللہ کے گھر کے ساتھ ساتھ روضہئ رسولؐ پر حاضری کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا ہے، کفار نے تحقیقات کے بعد یہ ثابت کر دیا ہے کہ مسلمانوں کی قوت اور اتحاد کی بنیاد محمدؐ کی ذاتِ مبارکہ اور اس کے ساتھ لازوال محبت اور عشق ہے۔ کوئی بھی مسلمان ہو، کتنا ہی بے عمل کیوں نہ ہو،اس کا ایمان کسی بھی درجے پر ہو لیکن اس کی ذات نبی پاکؐ کے ساتھ وابستگی اور وارفتگی بلند ترین سطح پر ہو گی۔
انگریزوں نے1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جب مسلمانوں سے اقتدار چھین لیا اور برصغیر پاک و ہند پر مغلوں کا اقتدار ختم کر دیا گیا تو انہوں نے مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے جہاں دیگر اقدامات کئے وہاں مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل میں ایک ناپاک پودا بھی لگایا، جس کا مقصد مسلمانوں کا نبی عربیؐ کے ساتھ تعلق کمزور کرنا تھا یہ ناپاک پودا بڑا ہو کر قادیانیت کی شکل اختیار کر گیا،مسلمانوں کے درمیان یہ فتنہ بڑھتا گیا، علماء اس کا مسلسل تعاقب کرتے رہے، نظری اور فکری طور پر ہی نہیں عملی طور پر بھی قادیانیت کا مقابلہ اور مواخذہ کیا جاتا ر ہا،اس کی بھی ایک طویل تاریخ ہے قادیانی کبھی بھی اپنی مذموم سرگرمیوں سے باز نہیں آئے، حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکمرانی میں ایک تحریک کے نتیجے میں قادیانیوں کو کافر قرار دے کر اس فتنے کا قلع قمع کر دیا گیا۔ قادیانی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اقلیت قرار دے دیئے گئے اس حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔اللہ انہیں ا جر ِ عظیم عطاء فرمائے، آمین اور وہ نوجوان بھی تحسین کے مستحق ہیں،جنہوں نے اس دور میں قادیانیوں کی سازشوں کا مقابلہ کیا اور ڈٹے رہے،حتیٰ کہ اسمبلی نے قادیانیوں کو کافر قرار دے کر اس فتنے کا خاتمہ کیا۔نصف صدی گزر چکی ہے قادیانیت، پاکستان میں محدود ہو چکی ہے، ہمارے علماء اور دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ قادیانی کافر ہیں اور انہیں اسلام کا نام لیکر اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر کسی قسم کی دھوکہ دہی کی اجازت نہیں ہے یہ سب کچھ امتناع قادیانیت آرڈیننس میں لکھا جا چکا ہے،لیکن گزرے50 سالوں کے دوران قادیانی اپنی مذموم سرگرمیوں کے ذریعے کبھی کبھی مسلمانوں میں اشتعال پیدا کرتے ہیں لیکن رائے عامہ اور علماء کرام کے بروقت ری ایکشن پر معاملات آگے نہیں بڑھتے اور شیطانی حرکات دم توڑ جاتی ہیں۔
حالیہ کیس بھی اسی طرح کا ہے ایک قادیانی کی اشاعت کلام کی مذموم حرکت کے باعث مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہوا۔قادیانی کا تعاقب کیا گیا، آئینی اور قانونی طور پر اسے اس حرکت سے روکا گیا۔معاملات درست سمت میں جا رہے تھے کہ ٹی پی ایل نے چیف جسٹس کے خلاف فتویٰ دے مارا۔ قادیانیوں کو اقلیت/کافر قرار دیئے جانے کے بعد آئینی اور قانونی طور پر اس معاملے کو یا قادیانیوں سے متعلق کسی بھی معاملے کو شخصی/انفرادی طور پر ہاتھوں میں نہیں لیاجا سکتا، ریاست ہی ایسے کسی معاملے کو آئین و قانون کے مطابق نمٹنے کی ذمہ دار ہے۔ریاست نے درست اور بروقت مداخلت کر کے معاملات کو بگڑنے سے بچا لیا ہے، کسی فرد یا جماعت کو اس بات کی ہر گز ہر گز اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ خود معاملات کو طے کرے، قادیانیوں کی کسی حرکت یا کارروائی کا چوکوں چوراہوں میں محاسبہ کریں اور کسی فرد یا جماعت کو اس بات کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ کسی ذمہ دار یا عام شہری کے بارے میں فتویٰ جاری کرے۔پاکستان ایک مستحکم ریاست ہے جس کے تمام آئینی ادارے فعال ہیں، انتظامی ادارے بھی کام کر رہے ہیں پاکستان کا ایک آئین ہے، جس میں معاملات نظری اور عملی طور پر طے کر دیئے گئے ہیں۔تحریک لبیک پاکستان نبی کریمؐ کی عصمت اور عطرت کے حوالے سے معاشرے میں نمایاں مقام رکھتی ہے، علامہ خادم حسین رضوی مرحوم و مغفور اس حوالے سے نمایاں مقام کے حامل تھے ان کے چاہنے والے اور انہیں سننے والے موجود ہیں اب ان کی جماعت کی قیادت جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے انہیں سوچنا چاہئے کہ رد قادیانیت اور قادیانیوں کا محاکمہ ایک احسن کام ہے اور اس کے لئے احسن طریقہ ہی بروئے کار لایا جانا چاہئے۔ ان کا کوئی بھی ایسا اقدام جس سے معاشرے میں انتشار پھیلے قطعاً درست نہیں ہے۔ ان کا پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جس کے آئین میں ختم نبوتؐ کو تحفظ دیا گیا ہے، ہمیں اپنی سرگرمیوں کو آئین پاکستان کے تحت سرانجام دینا چاہئے۔
26