دِل ناداں کو وہ کچھ ہوا ہے،جو دنیا میں موجود ہر فرد کو کبھی نہ کبھی ہوتا ہے۔ یہ دِل بوجھل تو بہت ہے لیکن فرض اور قرض کی ادائیگی بروقت ہی بہتر ہوتی ہے،قرض میں تو پورا ملک بلکہ نوزائیدہ بچہ تک جکڑا ہوا ہے اور میرا فرض یہ ہے کہ میں آج کے لئے یہ کالم سپردِ قلم کر کے دفتر بھیجوں، سو بیٹھا یہ سطور لکھ رہا ہوں،دِل تو یہی چاہتا ہے کہ معمول کی بات کر کے صفحہ پورا کر دوں، لیکن صحافت کا یہ پیشہ بھی چین نہیں لینے دیتا،اس کے اپنے تقاضے ہیں۔صحافتی اصولوں کے مطابق تو مجھے گزرتے مسائل اور باتوں کے حوالے سے سراغ لگانا اور نشاندہی کرنا چاہئے،لیکن ایک فرض صحت مند تنقید بھی ہے اور یہ بھی میرا فرض ہے کہ ایسا کروں۔ گزشتہ روز(جمعہ) کو اپنے ڈاکٹر فاروق چودھری کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لئے راولپنڈی جاتے اور رات دیرگئے واپس آتے ہوئے بھی دُکھ کے ساتھ ساتھ اردگرد کا جائزہ بھی لیتا اور حیران ہوتا رہا کہ ملک کے کس کس مسئلہ کا رونا روئیں،یہاں تو ہر شعبہ ہی متاثر ہے۔اول تو کرپشن کا چرچا ہے اور اگر اِس پہلو کو نظر انداز بھی کیا جائے تو کام چوری اور نااہلی کو کسی اور کھاتے میں ڈالا نہیں جا سکتا،جب ملک میں استثنیٰ کے ساتھ ہر فرد ہی کرپٹ یا کام چور اور نااہل ہو تو پھر یہ ملک کیسے ترقی کرے گا۔میں تو اکثر مصطفےٰ ٹاؤن اور وحدت روڈ کی پارکوں اور گرین بیلٹ کی تباہی کا رونا روتا اور کینال کے کناروں کے اطراف کا حال بیان کرتا رہتا ہوں، لیکن لاہور سے راولپنڈی تک موٹروے کا جو حال دیکھا اس سے خیال ہوا کہ شاید ہم نے مجموعی طور پر سدھرنے کا خیال ہی ترک کر دیا ہے اور پوری قوم ڈنگ ٹپاؤ فارمولے پر عمل کر رہی ہے،ان کی بلا سے بوم بسے یا ہما رہے،ان کو تو خود سے غرض ہے۔
لاہور۔ اسلام آباد موٹروے بنی تو کناروں کی طرف شجرکاری بھی ضروری تھی اور یہ بھی کر دی گئی اور ہزاروں پودے لگا کر ان کی پرورش بھی ہو گئی اور یہ سب جلد درخت بن گئے، سفیدے کی شجرکاری کا مقصد بھی یہی تھا کہ یہ جلد بڑا ہوتا ہے تاہم ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے اور ان کا بھی ہوا کہ تحقیق کے بعد زرعی ماہرین نے انکشاف کیا کہ سفیدے کا درخت عام پودوں سے کئی گنا زیادہ پانی لیتا ہے اور اس کی شجرکاری صرف اور صرف دلدلی اور سیم زدہ علاقوں ہی میں مفید ہے کہ یہ سیم کوختم کرنے میں معاون ہو سکتے ہیں،اس پر طویل بحث کے بعد بھی فیصلہ نشاندہی والے ماہرین کے حق میں ہوا تو فیصلہ ہو گیا کہ سفیدے کے درختوں کو بتدریج تبدیل کر کے سایہ دار شجرکاری کی جائے اور ایسے پودے لگائے جائیں جو پانی کم لیں اور سایہ دیں،اس فیصلے کے بعد عمل بھی شروع کر دیا گیا، کئی سال ہو گئے پروگرام کو شروع ہوئے میرا اِس بار دیر سے موٹرویز پر سفر کا اتفاق ہوا تو پہلا جھٹکا ہی یہ لگا کہ سفیدے جوں کے توں موجود تھے اور متبادل درخت یا پودے کہیں کہیں نظر آئے اور یہ بھی احساس ہوا کہ شاید اب عملدرآمد ہی چھوڑ دیا گیا ہے، حالانکہ اب دورِ جدید ہے،اس میں یہ تجویز بھی سامنے آ چکی ہے کہ موٹرویز اور ہائی ویز کے دونوں کناروں کی طرف پھل دار درخت لگا کر پھلوں کی کمی بھی دور کی جائے اس کے لئے نجی شعبہ کو بھی دعوت دی جا سکتی ہے۔ماہرین زراعت، علاقے، موسم اور حالات کا تجزیہ کر کے ایسے مقامات کی نشاندہی کر سکتے ہیں،جہاں جہاں مطلوبہ پھلوں کی آبیاری کی جا سکتی ہے اور یہ علاقے نجی شعبہ والوں کو کھلی نیلامی کے بعد دس سے بیس سال تک کے ٹھیکے پر دیئے جا سکتے ہیں، جو شجرکاری کے ساتھ ساتھ پودوں کی آبیاری کے بعد پھل کے بھی حق دار ہوں اس کے لئے منصفانہ شرائط عائد کی جا سکتی ہیں اور یوں یہ عمل رنگ چوکھا لائے گا۔
اب ذرا صحافیانہ نظر کی ایک اور درد والی بات بھی سن لے، میں نے گزشتہ کالموں میں وحدت کالونی کی بیرونی دیوار کے گملے اور اینٹیں چوری ہونے کا ذکر کیا تھا جبکہ یہ بھی بتایا تھا کہ گرین بیلٹس چراگاہ یا پارکنگ بن چکی ہیں، جبکہ حالیہ بارشوں نے مصطفےٰ ٹاؤن کی تمام پارکوں کی دیواریں توڑ دیں،جنگلے گر گئے اور پانی جمع رہنے سے گھاس اور پودے جل رہے ہیں۔یہ بھی بتایا کہ پارکوں میں دہائیوں پہلے رکھے بنچ ٹوٹ پھوٹ گئے اور پی ایچ اے کے عملے کی ساری دلچسپی لوہے کے جنگلے اٹھا کر لے جانے تک تھی، تاحال اس پر کسی نے توجہ نہیں دی، شاید محکمہ اور محکمے کے اعلیٰ حکام نے خبروں اور تجزیوں پر توجہ دینا ہی چھوڑ دی ہے، ابھی تک تو کسی ڈائریکٹر یا ڈائریکٹر جنرل نے ادھر کا دورہ بھی نہیں کیا۔یہ اور کینال کے کناروں کی نشاندہی ایک سے زیادہ بار کر چکا اور اب پھر ذکر کر دیا شاید کسی ذمہ دار کی نظر سے گذر ہی جائے۔اس سلسلے میں اس افسوسناک امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ اس مصروف تر موٹروے کے کناروں پر لوہے کے چوڑے اینگل آرمز کی صورت میں رکاوٹ لگائی گئی تھی جو پورے موٹروے پر موجود تھی، میری نگاہ پڑی تو دُکھ سے دِل بھر گیا کہ یہ باڑ غائب تھی۔لاہور سے راولپنڈی آتے جاتے کناروں کی طرف دیکھا تو یہ رکاوٹ نظر نہیں آتی تھی،ماسوا اِس کے کہ کہیں کہیں کوئی ٹکڑا موجود تھا جس پر زرد نشان لگا دیئے گئے کہ سفر کرنے والے ڈرائیور غلطی سے ان کے ساتھ نہ ٹکرا جائیں۔اب میں یہ تو نہیں کہ کہہ سکتا کہ یہ لوہا چوری ہوا یا خود اتارا گیا لیکن یہ ضرور عرض کر سکتا ہوں کہ اس کے اُتر جانے سے خطرات میں اضافہ ضرور ہوا ہے اور یہ بھی حیرت ہے کہ اِس کا نوٹس کیوں نہیں لیا گیا،حالانکہ یہ موٹروے سرکاری حکام اور برسر اقتدار حضرات کی گذر گاہ بھی ہے۔
اب ذرا احوال موٹروے کی انتظامیہ کا ہو جائے،جب سے اسے این ایچ اے کے سپرد کیا گیا تب سے محصول کی رقم بڑھانے پر توجہ ہے اور دیگر امور صرف تحریری ہدایات تک محدود ہیں،پولیس کی گاڑیاں دور دور کناروں پر کھڑی رہتی ہیں،ان کی اشاراتی روشنیاں چمکتی ہیں۔اہلکار مزے سے کھڑے اور ایک اہلکار کیمرہ لگائے منتظر ہوتا ہے کہ تیز رفتار والی گاڑی کی تصویر بنا لے جو ڈیجیٹل نظام کے تحت رفتار بھی بتا دیتی ہے تاہم ہمارے شہری بھی بہت ہوشیار ہیں ان آنے جانے والوں نے بھی ایریاز ذہن نشین کر رکھے اور کروڑ سے کئی گنا مہنگی گاڑیوں والے120 کلو میٹر کی آخری حد کو پھلانگ کر140 سے160 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتے ہیں۔یوں بھی جو فرد ڈیڑھ سے ڈھائی کروڑ روپے کی گاڑی کا مالک ہے اسے دو ہزار روپے کے چالان سے کیا فرق پڑتا ہے۔
چلتے چلتے عرض کر دوں،محنت کش تنخواہ دار افراد نے مجبوراً ٹیکس کی ہر شرح قبول کر لی، لیکن اشرافیہ اور تاجر بھائی تو ٹیکس دینا ہی نہیں چاہتے اس لئے تاجر حضرات نے18اگست کی ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔ افسوس کہ جماعت اسلامی جیسی جماعت نے کسی غور کے بغیر سیاسی طور پر ان تاجروں کی ہڑتال کی حمایت کر کے اسے گود لے لیا ہے۔
32