18

انتخابی سیاست پر شہ رگ قربان ہوچکی

”انتخابی سیاست پر شہ رگ قربان ہوچکی“
تحریر:آغا سفیرحسین کاظمی
قارئن!سرسری سا جائزہ بھی لیا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلام آبادکی ترجیحات الگ ہیں اور پاکستان کے مفادات کے تقاضے الگ ہیں۔اور اسلام آبادنے اپنی ترجیحات کی سیاست و جمہوریت پر ”ریاست پاکستان کو قربان“کرنے میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی۔دوسری طرف ”آزادکشمیرمیں فکری و نظریاتی انتشار عروج پر ہے“اور اسلام آبادکے طرز سیاست وحکومت کی نحوست نے کشمیر کاکام تمام کردیا ہے۔لیکن طویل عرصہ کشمیریوں کا نام بیچ کر،کشمیریوں کی حمایت کے لبادے میں اقتدارو اختیارپرگرفت رکھنے والے ”زمینی حقائق“کوتسلیم کرنے سے خوفزدہ ہیں۔کیونکہ ایسا کرتے ہوئے اِنکی سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں۔اس لئے اب بھی آزاد کشمیرمیں ”پروپگنڈؤں“کی سیاست پرپیش قدمی ترجیح ہے۔حالانکہ کشمیریوں کیساتھ (برائے نام بیس کیمپ کے)کئی دہائیوں تک مسلسل دھوکہ وفریب کااحساس ہونا جانا چاہیے۔ مگریہ لوگ اب بھی حقائق تسلیم کرنییکا حوصلہ نہیں رکھتے۔اوراسلام آبادکی سرپرستی میں شروع کی گئی”انتخابی سیاست کا دوام“چاہتے ہیں ۔۔۔۔حالانکہ سنجیدہ اور حقیقت پسند لوگوں کا یقین ہے کہ 5اگست 2019کے ہندوستانی اقدام کے پیچھے موجودخطرے کا احساس کرلیا جاتا تو بھی شاید صورتحال موجودہ موڑتک نہ پہنچتی۔۔۔۔ آزادکشمیرکی حکومتی سیاسی قیادت ’اگر صرف آزاد حکومت سرکاری ملازمین“ اور اُنکی نسبت سے ”صحت سمیت دیگرمراعات“سے استفادہ کرنیوالے متعلقین اور سیاسی کارکنوں کو ہی سڑکوں پر لے آتی۔۔۔۔۔۔ 42لاکھ آبادی میں سے کم ازکم 10لاکھ لوگ مظفرآباد اور اسلام آبادمیں مسلسل احتجاج کرتے۔اس دوران سفارتخانوں کو یاداشتیں پیش کی جاتیں۔۔۔لندن،پیرس،نیویارک ودیگرنمایاں مقامات پربیرونی دُنیا میں بھی متاثرکن ”ردعمل“دیا جاتا۔تو کشمیراور کشمیریوں سے خطہ کے سنجیدہ تعلق کا اظہارہوتا۔۔۔ مگر دارالحکومت مظفرآباد میں محض 10ہزار لوگ اکٹھے کئے جاسکے۔نہ اسلام آبادکی پاکستان مخالف سیاسی روش کو کچھ فرق پڑا؟؟۔۔۔ البتہ کچھ فرق پرا توفقط یہی کہ آزادکشمیرمیں بجلی کی فی یونٹ قیمت پرآزادحکومت نے اپنے عوام سے ناجائز منافع اور ناجائز ٹیکسزوصولی کے ذریعے ”لوگوں“کو اشتعال دلانے کی حماقت میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔۔۔۔ آٹاہرشہری کو یکساں بمطابق ضرورت مہیا ہونا چاہیے،نہیں ہورہا،حرامخوری نے شاید کچھ لوگوں سے یہ توفیق ہی نہیں چھوڑی کہ وہ”مناسب حکمت عملی“اختیارکرسکیں۔اسلم آبادسمیت پوش لوگوں میں جائیدادیں،بنک بیلنس،اور اثاثہ جات پتہ نہیں کس کس طریقے سے چھپانے کی حکمت عملی آسان لگتی ہے۔اور عوام کی جائزضروریات کوپورا کیسے کریں،سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔۔۔۔محکمہ خوراک کے تحت لوٹ مارکے سلسلے کوبدستورجاری رکھا ہوا ہے۔اور یہ محکمہ ایک طرح سے مکتی باہنی کی جدید شکل میں پروفارم کررہا ہے۔۔۔۔ ان زمینی حقائق کے باوجود نہ اسلام آبادمیں ندامت ہے۔نہ اسلام آبادکی پروان چڑھائی گئی طرزسیاست و حکومت کو ”دارالحکومت مظفر آبادمیں“ذرا بھرشرمندگی ہوئی۔۔البتہ سوشل میڈیا کی برکت سے مہاراجہ کو مسیحا ظاہرکرکے نفاق و نفرت کا کھیل جاری ہے۔اس صورتحال میں ہندوستان کو اس خطہ میں ہلچل مچانے کیلئے کچھ بھی کرنے میں کیونکرمشکل ہوسکتی ہے؟؟جب گھرکے چراغ،آگ بھڑکانے پرآمادہ و تیارہوں۔
پچھلے بیس پچیس سال چند سیاستدان،مولاجٹ کے اندازمیں اسلام آبادکو آنکھیں دکھاتے رہے ہیں۔جب بھی کسی کے مفادکو خطرہ ہوا ۔مخصوص سیاسی ترجیحات کو دھچکا لگنے لگا،اُنھیں کشمیرکی وحدت یادآنے لگی۔اور تحریک آزادی کے لئے کشمیریوں کی جدوجہد میں جان ومال،عزت وآبروکی دی گئی قربانیوں کے غم میں لکان ہونے لگے، شدومدسے کہا جاتا رہا۔ کہ ایسا ہوگیا تو اُس پارکیا پیغام جائیگا؟؟ویسا ہوگیا تو ”اُس پارکیا پیغام جائیگا“؟؟۔۔۔روزانہ نہیں مگردوسرے تیسرے روز،ہفتہ عشرہ میں مقبوضہ کشمیرکے لوگوں کی جدوجہد آزادی کے حوالے سے صدر،وزیر اعظم، اپوزیشن ودیگرکی جانب سے کوئی نہ کوئی بیان داغنا معمول رہا ہے۔کوئی بھی موضوع نہ ملے تو تحریک آزادی اور کشمیریوں کی جدوجہد پربیانات داغنا، دونوں ممالک کے ایٹمی ہونے اور ہولناک جنگ کی پیشنگوئیاں تو ہمارے سیاستدانوں کے منشیوں نے اتنی باردہرائیں کہ اب تو ایسے الفاظ،پرکوئی توجہ بھی نہیں دیتا۔ پاکستان کے سیاسی حالات میں جتنے اُتارچڑھاؤ آئے،ان گزرے سالوں میں آزادکشمیرمیں کسی کو پریشانی نہیں ہوئی۔خاص کر جب اسلام آبادمیں مخالف پارٹی کی حکومت ہوتو یہاں موجود فرنچائرڈ والوں نے اپنی مرکزی قیادت سے وفاداری کو بام عروج تک دکھانے کیلئے ”بہادری“دکھاناوطیرہ رکھا۔اور اگرمرکزمیں بھی اپنی قیادت بیٹھی ہوتوپھرخوشامد چاپلوسی کیساتھ ”معذرت خواہانہ انداز“اختیارکرتے ہوئے نامعلوم ”ریاستی تشخص یادنہ آیا۔مظفرآبادمیں کسی بھی مخالف پارٹی کی حکومت اس لئے برداشت کی جاتی رہی۔کہ مسئلہ کشمیرآڑے آجاتا۔اور اسلام آباد والوں کو بھی لگتا ”اُس پارمنفی پیغام جائیگا“۔۔۔۔ ۔۔۔۔مگرکہتے ہیں،مکروفریب،جھوٹ کی عمرزیادہ بھی نہیں ہوتی۔اورپھرہوا کچھ یوں،کہ ہندوستان نے اپنے آئین میں مقبوضہ کشمیرکو خصوصیت حیثیت دی۔اور اسرائیلی طرزپرمقبوضہ کشمیرمیں آبادی کا تناسب بگاڑنے کی کوششوں سے حوصلہ افزاء نتایج حاصل ہونے کے بعد سپریم کورٹ آف انڈیا سے ٹھپہ بھی لگوا لیا گیا ہے۔۔۔۔اور اب اسلام آبادکی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھاچکا ہے۔اس دوران بدلے چکانے کیلئے پاکستان کی مغربی سرحدوں سے اندرمداخلت کے بعد آزادکشمیرمیں بھی ”پاکستان مخالف“کھیل شروع کردیا ہے۔جبکہ یہاں اسلام آبادکی سیاسی شاخوں میں اب بھی حالات کی نزاکت کا کوئی احساس نہیں ہے۔ ۔۔۔۔ کشمیراگرواقعی شہ رگ پاکستان کہنے سے زیادہ حقیقت میں تسلیم کیا جائے تو پھرآزادکشمیرکے سیاسی قیادت اور اُسکوآکسیجن دینے والا اسلام آ ٓباد کہاں کھڑا ہے؟؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں