ڈیلی دومیل نیوز،مظفرآباد (نامہ نگار) پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور اپوزیشن لیڈر خواجہ فاروق احمد نے انوار کابینہ سے مستعفی ہونے والے وزراء اور پیپلز پارٹی و مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے والے ارکان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اگر انہیں سیاسی آداب اور اعلیٰ روایات کا پاس ہے تو وہ اپنے منصب، سرکاری گاڑیوں اور عملے سے فوری طور پر الگ ہو جائیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک عجب طوائف الملوکی ہے کہ جن وزراء نے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا اعلان کر رکھا ہے، وہ ابھی تک اسی کابینہ کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ان کے مطابق ایسے رویے سے سیاست کی اعلیٰ روایات مجروح ہو رہی ہیں اور سیاست کو ایک گالی بنا دیا گیا ہے۔
خواجہ فاروق احمد نے پیپلز پارٹی کی قیادت سے سوال کیا کہ اگر ان کے بقول 27 اراکین اسمبلی ان کے ساتھ ہیں تو کیا وہ یہ وضاحت کریں گے کہ ان میں سے 12 اراکین پی ٹی آئی کے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ “کس جمہوری اصول یا روایت کے تحت آپ نے دوسروں کے اراکین کو اپنا مال مسروقہ قرار دیا ہے؟ کیا یہی جمہوریت آپ کو محترمہ بینظیر بھٹو نے سکھائی تھی؟”
انہوں نے مسلم لیگ (ن) پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس جماعت نے بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ اقتدار کی بندر بانٹ میں حصہ لیا ہے۔ ان دونوں جماعتوں کے سمجھدار اور باوقار اراکین اب عوام کے سامنے شرمندگی محسوس کر رہے ہیں اور اقتدار کی لالچ میں بے صبری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر نے مطالبہ کیا کہ نئے انتخابات کرائے جائیں تاکہ روز روز سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو ان کی اوقات کا پتہ چل سکے۔
انہوں نے پیپلز پارٹی کی قیادت پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ “اب اپنے اراکین کی شناخت پریڈ کا سلسلہ بند کیا جائے۔ جس رکن اسمبلی کی شناخت ہو چکی ہے، اسے ہی وزیراعظم کے لیے نامزد کر دیں۔ ہر روز اراکین کو عوامی تذلیل سے دوچار نہ کریں۔”
اسی طرح انہوں نے مسلم لیگ (ن) سے کہا کہ اسلام آباد میں روزانہ اراکین اسمبلی کی حاضری لگانے کا سلسلہ بھی بند کیا جائے۔
خواجہ فاروق احمد نے مزید کہا کہ اگر حکومت کو اسمبلی کا اعتماد حاصل نہیں رہا تو اقتدار سے چمٹے رہنے کی بجائے مستعفی ہو جانا چاہیے۔ عوام کے صبر کا امتحان نہ لیا جائے۔ آزاد کشمیر کی سیاست اور روایات کو برباد کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “جب مقبوضہ کشمیر میں حریت رہنما یاسین ملک کو پھانسی دینے کی سازشیں کی جا رہی ہیں، ہم یہاں بیس کیمپ میں وزیراعظم کی کرسی کے لیے دست و گریباں ہیں۔”