ڈیلی دومیل نیوز.پاکستان کے اعلیٰ سطح کے ذرائع کا کہنا ہے کہ استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان وفد کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات طالبان کی سخت گیر رویے اور ہٹ دھرمی کے باعث تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ مذاکرات کے دوران بھارت اور افغان طالبان کے تعاون کا پہلو بھی نمایاں ہو کر سامنے آیا۔
اعلیٰ سطح کے ذرائع کے مطابق مذاکرات میں ناکامی کی تمام ذمہ داری پاکستان نے افغان وفد کی غیر سنجیدگی پر ڈال دی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ طالبان حکومت نے اپنے سوشل میڈیا سے منسلک اکاؤنٹس کو یہ ہدایت دی کہ وہ ایک مخصوص بیانیہ عام کریں جس میں پاکستان پر الزامات منتقل کیے جائیں۔ اس جعلی اور بے بنیاد بیانیے کے مطابق اکاؤنٹس کو کہا گیا کہ لکھیں کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پاکستان کا داخلی معاملہ ہے اور اسے صرف پاکستان حل کرے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان نہیں بلکہ افغانستان پاکستان سے دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے، خاص طور پر داعش کی صورت میں اور پاکستان افغان خودمختاری کو تسلیم نہیں کرتا۔
اسلام آباد کے حکام نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ طالبان کی جانب سے کراس بارڈر دہشت گردی میں ان کے کردار کو چھپانے کی کوشش ہے۔ ذرائع کے مطابق افغان وفد مذاکرات کے دوران کبھی سنجیدہ نہیں تھا اور بظاہر وہ بیرونی ہدایات، خاص طور پر بھارت کی، پر عمل کر رہا تھا۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ طالبان اپنے بھارتی حامیوں کی طرح دوسروں پر دہشت گردی کے الزامات لگا کر اپنی ذمہ داری سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ داعش کے غیر موجودہ خطرے کے دعوے کے ذریعے افغانستان میں ٹی ٹی پی کی حمایت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان نے یہ بھی واضح کیا کہ افغانستان کی خودمختاری کو تسلیم نہ کرنے کا الزام بے بنیاد ہے، کیونکہ پاکستان ہمیشہ افغان زمین کی سالمیت اور خودمختاری کی حمایت کرتا رہا ہے اور غیر ملکی حملوں کے خلاف افغان دفاع میں کردار ادا کرتا رہا ہے۔
ایک سینیئر پاکستانی عہدیدار نے کہا، ‘پاکستان کا مؤقف ابتدا سے واضح ہے کہ طالبان حکومت کو ٹی ٹی پی کی حمایت بند کرنی چاہیے اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے بچانا چاہیے۔’ عہدیدار نے مزید کہا کہ طالبان کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہوئے، تاہم پاکستان اپنی سرحدوں اور شہریوں کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا، چاہے افغان تعاون ہو یا نہ ہو۔