21

مسئلہ حل ہو گیا مگر چند سوالات نسیم شاہد

لو جی سب کو مبارک ہو ایک اور مسئلہ حل ہو گیا، سب امن چین سے رہنے لگے، کوئی لائن نہیں کٹی، کوئی مارشل لاء نہیں لگا، حالات کنٹرول میں آ گئے، ایسا ہم بچپن میں پڑھی جانے والی کہانیوں میں پڑھتے تھے، جن کا اختتام اسی جملے پر ہوتا تھا سب اپنے اپنے گھر خوشی کے ساتھ چلے گئے، جی ہاں میں آزاد کشمیر میں ہونے والے اس اعصاب شکن دِنوں کی بات کر رہا ہوں،جو پچھلے ایک ہفتے میں گزرے۔ سوشل میڈیا پر پابندی اور نیٹ کی عدم دستیابی کے باعث افواہوں کا بازار بھی گرم رہا۔کیسی کیسی بھیانک اور فرضی خبریں ایک دوسرے کے اعصاب شل کرنے کے لئے جاری کی جاتی رہیں۔ہم نے اپنی وہی تاریخ دہرائی جو ہمیشہ ہمارا مقدر رہی ہے۔بروقت فیصلے نہ کرنا اور پھر جب پانی سر سے گزرنے کی نوبت آ جائے تو ہر بات ماننے کے لئے تیار ہو جانا۔ کہا جاتا ہے کہ کسی تحریک یا احتجاج کے ابتدائی دِنوں میں معاملے کو حل کرنا بہت آسان ہوتا ہے، مطالبات بھی تھوڑے ہوتے ہیں اور احتجاج کرنے والوں کو اپنی طاقت کا اندازہ بھی نہیں ہوا ہوتا، مگر اس کا کیا کِیا جائے کہ ہماری حکومتوں نے سو پیاز والے محاورے کے مطابق کبھی بروقت فیصلے کئے اور نہ حالات پر توجہ دی۔ آپ ماضی میں دیکھیں، کتناہی کام خراب ہوا، نقصانات ہوئے ریاست کی رٹ کمزور ہوئی تب جا کے معاملات پر توجہ دینے کی فرصت ملی۔تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف1977ء میں چلنے والی تحریک اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ بھٹو آخر وقت تک اپنی کرسی کی مضبوطی پر گھمنڈ کرتے رہے، جبکہ اقتدار اُن کے ہاتھ سے پھسل رہا تھا۔مذاکرات کا دور طویل ہوتا گیا اور حالات بھی بگڑتے چلے گئے۔لائن کٹ گئی تو ہوش آیا کہ اقتدار تو ویسے ہی جانا تھا، بات مان کر کوئی راہ نکال لی جاتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ ہم تو وہ ملک ہیں جس کی تاریخ تحریکوں اور احتجاجوں سے بھری پڑی ہے،ہمیں تو یہ سبق اب تک سیکھ جانا چاہئے کو ن کون شا ایشو کیسے سر اُبھار رہا ہے اور اس کا بروقت حل کیسے تلاش کرنا ہے۔آنکھیں بند کر کے بیٹھ جانے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اس وقت بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں کے حالات بھی ہماری توجہ چاہتے ہیں،مگر انہیں کسی ایسی صورت حال کے انتظار میں اٹکا رکھا ہے کہ جب معاملات ناگزیر ہو جائیں گے تو سنبھال لیں گے۔

خیر یہ آزاد کشمیر کا معاملہ تو ہمیشہ سے ہمارے لئے حساس رہا ہے۔ ہم نے دنیا کو بتا رکھا ہے کہ بھارت نے جس کشمیر پر قبضہ کر رکھا ہے،وہاں انسانی حقوق کی صورت حال کیا ہے اور جو کشمیر پاکستان کے پاس ہے وہاں کتنی آزادی اور انسانی حقوق کتنے شاندار ہیں،ہم نے وہاں ایک پارلیمنٹ بھی بنائی، صدر اور وزیراعظم کے عہدے بھی دیئے تاکہ ایک آزاد ریاست کا تاثر پیدا ہو سکے،مگر اس کے باوجود حالیہ عرصے میں یہ دوسری بار ہوا ہے کہ کشمیری عوام نے بھرپور احتجاج کر کے اس ریاستی بندوبست پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔سب سے پہلی ذمہ داری تو آزاد کشمیر اسمبلی کی ہے۔وہ آخر اتنی بے بس اور غیر فعال کیوں ہو چکی ہے کہ عوام کا اعتماد اُس پر نہیں رہا،وزیراعظم آزاد کشمیر آخر اپنے منصب کو اِس قابل کیوں نہیں بنا سکے کہ عوام کی امیدوں پر پورا اُتر سکیں،اُن کے مسائل حل کر سکیں۔ کشمیر ایکشن کمیٹی کوئی سیاسی جماعت نہیں،حال ہی میں عوام کی ترجمانی و نمائندگی کے لئے بنائی گئی،سوچنا ہو گا وہ اتنی مقبول کیسے ہو گئی اور تمام سیاسی جماعتیں غیر مقبول کیوں ٹھہریں؟ جب یہ تحریک منظم ہو رہی تھی اور ایکشن کمیٹی کی جانب سے مطالبات سامنے آ رہے تھے تو اُس کی شدت کا اندازہ کیوں نہیں لگایا جا سکا۔ پھر یہ احمقانہ حکمت عملی کیوں اختیار کی گئی کہ ایکشن کمیٹی کے احتجاجی جلوسوں کو ناکام بنانے یا شرکاء کو خوفزدہ کرنے کے لئے اقتدار میں موجود جماعتوں کے کارکنوں کو اسلحہ دے کر استعمال کیا گیا۔یہ بالکل احمقانہ سوچ تھی، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پھر معاملات کی شدت کو سمجھے بغیر اسلام آباد سے پولیس کی نفری بھیج دی گئی پہاڑی علاقوں میں جا کر راستوں اور گھاٹیوں سے بے خبر پولیس والوں کو بلا سوچے سمجھے مظاہرین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ نتیجہ کیا نکلا، جگہ جگہ اہلکاروں کی لٹکتی وردیاں مذاق اڑاتی رہیں، یعنی ایک ایسے معاملے کو جسے مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتاتھا ہمارے کار پردازوں نے حسب ِ روایت طاقت کے استعمال سے حل کرنے کی کوشش کی،نتیجہ بھیانک نکلا، پولیس والے بھی شہید ہوئے اور کشمیریوں کی بھی جانیں گئیں۔ بعداز خرابی ئ بسیار حکومت پاکستان نے ایک اعلیٰ سطحی مذاکراتی ٹیم تشکیل دی،جس نے تین دن کشمیر میں بیٹھ کے مسئلے کی نوعیت سمجھی، ایکشن کمیٹی کے ارکان سے مذاکرات کئے، جو بالآخر کامیاب رہے اور ایک معاہدہ ہو گیا۔آپ معاہدے کی شقوں پر غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ کوئی بھی ایسا نہیں تھا، جس پر مذاکرات نہ ہو سکتے ہوں۔ کشمیری مجاہدین کی بارہ نشستوں کا معاملہ بھی کوئی ایسا نہیں تھا،جس پر بات نہ کی جا سکتی ہو۔ ا ب اُس کے لئے ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے، یہ کام پہلے بھی کیا جا سکتا تھا۔باقی زیادہ تر معاملات معاشی فیصلوں سے تعلق رکھتے ہیں، جن پر اتفاقِ رائے ہو گیا ہے۔ کاش یہ کام پہلے ہو جاتا۔

اب میں کچھ باتیں ایک پاکستانی کی حیثیت سے کشمیری بھائیوں سے بھی کرنا چاہتا ہوں۔اس احتجاجی تحریک کے دوران کچھ کالی بھیڑوں نے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے خلاف جو باتیں کیں، بھڑاس نکالی،اُن کا محاسبہ خود کشمیری عوام کو کرنا چاہئے۔جب ہم پاکستانی یہ کہتے ہیں کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے ہم کشمیر کو اپنی جان سمجھتے ہیں، کشمیریوں کے لئے چاہے وہ مقبوضہ کشمیر کے رہنے والے ہوں یا آزاد کشمیر کے، پاکستان نے بہت قربانیاں دی ہیں، ہر فورم پر اُن کے لئے آواز بھی اٹھائی ہے،اس لئے جذبات میں آ کر پاکستان سے اپنے اٹوٹ تعلق کو نہ بھولیں۔ یہ پاکستان ہی ہے جس نے بھارت جیسے غاصب ملک کو آزاد کشمیر میں جارحیت سے روکا ہوا ہے۔ہر پاکستانی یہ چاہتا ہے کشمیر میں خوشحالی آئے، امن رہے اور ترقی ہو، لیکن کشمیری بھائیوں کو بھی یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستان خود بھی کوئی خوشحال ملک نہیں، قرضوں میں ڈوبی ہوئی معیشت ہمارے پاؤں کی زنجیر ہے۔ پاکستان میں غربت ہے، پسماندگی ہے،محرومیاں ہیں، لیکن پاکستانی عوام نے ان کے ساتھ گذارا کیا ہے۔ وہ آج بھی بجلی کا مہنگا یونٹ خریدتے ہیں اور آٹا انہیں مارکیٹ کے بھاؤ ملتا ہے۔ اگر کشمیری یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں بجلی تین روپے یونٹ اور آٹا سستے داموں فراہم کیا جائے تو وہ گویا پاکستان کی معیشت پر ایک اور بوجھ ڈال رہے ہیں، وہ ایک ایسی چیز اپنے لئے مانگ رہے ہیں جو80فیصد پاکستانیوں کو حاصل نہیں، اپنے مطالبات کو شہ رگ پر انگوٹھا رکھ کر منوانے والے کشمیریوں کو اس پر ضرور سوچنا چاہئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں