[ad_1]
ملک گیر سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک گیر مطالعہ میں جمع کیے گئے ڈھیلے دودھ کے 92 فیصد نمونے مطلوبہ حفاظت اور معیار کے پیرامیٹرز پر پورا نہیں اترتے تھے۔
یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز (UVAS) کی طرف سے کی گئی یہ تحقیق پاکستان میں ڈھیلے دودھ کی حفاظت اور معیار سے متعلق پہلا قومی نمائندہ ڈیٹا فراہم کرنے کے لیے کی گئی۔
ایک تحقیقی ایجنسی نیلسن کی جانب سے کیے گئے اس سروے میں 11 بڑے شہروں سے 1,206 نمونے اکٹھے کیے گئے جن کا تجزیہ پانچ معیار اور حفاظتی پیرامیٹرز پر کیا گیا جن میں مرکب، ملاوٹ، اینٹی بائیوٹک کی باقیات، افلاٹوکسن M1 اور بھاری دھاتیں شامل ہیں۔
اس پراجیکٹ UVAS کے پرنسپل تفتیش کار، ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر عظمت اللہ خان نے انکشاف کیا کہ ملک میں دستیاب ڈھیلا دودھ کا 54 فیصد حقیقت میں استعمال کے لیے “نا مناسب” تھا۔
اس موقع پر UVAS کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نسیم احمد نے کہا کہ ان کا ادارہ لائیو سٹاک، پولٹری، ڈیری، گوشت اور خوراک کی صنعتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور “ایک تھنک ٹینک کے طور پر اپنا قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے تاکہ وسیع پیمانے پر درپیش مسائل کو حل کیا جا سکے۔ صنعت”۔
دریں اثنا، یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا نے صارفین کی بیداری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے کا واحد طریقہ ٹریک ایبلٹی ہے۔
[ad_2]